تجارتی تحفظ پسندی اور عالمی معاشی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے، اقتصادی ماہرین WhatsAppFacebookTwitter 0 22 January, 2025 سب نیوز

بیجنگ:ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس 2025 سوئٹزرلینڈ کے ڈیووس میں جاری ہے۔ دنیا میں سب سے بااثر بین الاقوامی غیر سرکاری اقتصادی فورمز میں سے ایک کی حیثیت سے ، ورلڈ اکنامک فورم عالمی اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کرنے اور بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ موجودہ اجلاس میں کئی ممالک کے سیاسی رہنماؤں سمیت 130 ممالک اور علاقوں کے تقریباً 3000 مندوبین فورم میں شرکت کر رہے ہیں ۔ “ذہین دور میں تعاون” کے موضوع کے ساتھ ، فورم کے موجودہ سالانہ اجلاس میں جغرافیائی سیاسی بحران ، گلوبلائزیشن کی “مشکلات” ، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں میں شدت ، اور نئی ٹیکنالوجیوں کے ذریعے عالمی ترقی کی نئی صورتحال سمیت مشترکہ چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

اجلاس کے آغاز سے قبل ورلڈ اکنامک فورم نے “گلوبل کوآپریشن بیرومیٹر”، “گلوبل رسکس رپورٹ 2025” اور “چیف اکانومسٹ آؤٹ لک” جیسی رپورٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تنازعات اور بڑھتی ہوئی غیر مستحکم صورتحال کے باعث عالمی تعاون کے نظام کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ سروے میں شامل نصف سے زیادہ ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ تجارتی تحفظ پسندی اور عالمی معاشی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے، عوامی قرضے اور افراط زر کی بلند شرح معاشی نمو میں کمی کا موجب ہے، اور مختلف علاقوں میں معاشی بحالی غیر متوازن ہے۔آج کی دنیا میں بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے ،

موسمیاتی تبدیلی، غذائی تحفظ اور توانائی کے تحفظ سمیت دیگر مسائل یکے بعد دیگرے ابھر رہے ہیں اور بین الاقوامی نظام، بین الاقوامی نظم و نسق اور بڑے ممالک کے درمیان تعلقات میں گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ شیوئی شیانگ نے 21 جنوری کو سالانہ اجلاس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف “مل کر کام کرنے” اور تعاون کو مضبوط بنانے سے ہی ہم مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک بہتر مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو جیسے اہم اقدام پیش کیے ہیں جس نے دنیا کو اہم پبلک گڈز فراہم کی ہیں۔ ہمیں تینوں گلوبل انیشی ایٹوزکو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ قوت محرکہ سے بھرپور ترقی کو فروغ مل سکے اور مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پانے کی طاقت کو یکجا کیا جا سکے۔

حالیہ برسوں میں، عالمی اقتصادی ترقی میں چین کا سالانہ حصہ تقریباً 30فیصد رہا ہے، جو عالمی اقتصادی ترقی کے لئے سب سے بڑی محرک قوت رہا ہے.

2024 ء میں چین نے اندرونی کھپت کو فروغ دینے کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، جس سے معیشت کو موثر طور پر فروغ ملا ہے۔ مستقل قیمتوں کے مطابق 2024 میں چین کی جی ڈی پی میں2023کے مقابلے میں 5.0فیصد کا اضافہ ہوا ، جس نے چینی معیشت کی مضبوط لچک اور توانائی کا مظاہرہ کیا۔ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر چین نے عالمی تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین باہمی فائدہ مند تعاون پر یقین رکھتا ہے اور جنوب جنوب تعاون میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چین نے دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے اور سرمایہ کاری اور دیگر طریقوں کے ذریعے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ د یا ہے۔اس وقت، سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور صنعتی اصلاحات کا ایک نیا دور گہرائی سے ترقی کر رہا ہے، اور تکنیکی انقلاب کی لہر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے.اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے ، اور تکنیکی، ڈیجیٹل اورانٹیلی جنس کی تقسیم اب بھی بڑھ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ سالانہ اجلاس کا موضوع “ذہین دور میں تعاون” رکھا گیا ہے،

جو بڑی عملی اہمیت کا حامل ہے۔ مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے کثیر الجہتی اور دوطرفہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ مشترکہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجیوں کا ذمہ دارانہ استعمال کسی ایک ملک کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا ہے ، بلکہ صرف کثیر الجہتی تعاون میکانزم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔چین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کثیر الجہتی دنیا کو درپیش مشکل چیلنجوں کو حل کرنے کی “سنہری کلید” ہے اور اس کی کلید بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے میں مضمر ہے۔ ذہین دور میں عالمی چیلنجوں کے جواب میں ، چین نے موجودہ اجلاس میں تجویز پیش کی کہ ہمیں نئی معیاری پیداواری قوتوں کے فروغ میں تیزی لاتے ہوئے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ابھرتی ہوئی صنعتوں اور فیوچر انڈسڑی کو وسعت دینے میں ممالک کی مدد کی جائے ۔ ہمیں سائنسی اور تکنیکی ثمرات سے تمام انسانیت کے مستفید ہونے کے تصور پرقائم رہتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت، ذہین نقل و حمل اور اسمارٹ انرجی سمیت نئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد فراہم کرنی چاہیئے اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے کلیدی شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور اطلاق کو مضبوط بنانا چاہیئے تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے تیز رفتار ٹریک پر گامزن ہو سکیں۔

جدیدکاری کی جانب گلوبل ساؤتھ ممالک کے اتحاد اور تعاون سے کثیر الجہتی تجارت اور موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے تک ، پھر عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے لئے اپنی تجویز پیش کرنے تک، چین عالمی اقتصادی حکمرانی کو بہتر بنانے اور عالمی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے چینی حل اور دانشمندی فراہم کر رہا ہے اور کرتا رہے گا ۔ مشکل کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، انسانیت کی ترقی کو روکنا ناممکن ہے۔ہمیں یقین ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کریں گے، مشترکہ طور پر مساوی اور منظم عالمی کثیر القطبی اور جامع اقتصادی عالمگیریت کی وکالت کریں گے، اور مشترکہ طور پر دنیا کے لئے ایک بہتر مستقبل تشکیل دیں گے۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: اور عالمی رہی ہے

پڑھیں:

سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک

کراچی:

حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی معیشت کوقلیل مدتی طور پر متاثرکیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتارسست ہو سکتی ہے،جبکہ افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک نے پالیسی شرح سود کو 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باوجود پاکستان کی معیشت گزشتہ بڑے سیلابوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مضبوط ہے۔

قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اورکرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال مستحکم رہی ہے۔ علاوہ ازیں امریکاکی جانب سے درآمدی محصولات میں ترمیم نے عالمی تجارتی بے یقینی میں کمی لائی ہے، جو پاکستان کیلیے  مثبت پیش رفت ہے۔

سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق خریف کی فصل کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے تجارتی خسارے میں اضافے کاامکان ظاہرکیاجا رہا ہے۔

اگرچہ امریکاسے بہتر مارکیٹ رسائی کی بدولت اس نقصان کاکچھ حد تک ازالہ متوقع ہے،تاہم زرعی اور صنعتی شعبوں کے ساتھ ساتھ خدمات کا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ مالی سال 26-2025 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.25 فیصد سے 4.25 فیصدکی نچلی حدکے قریب رہنے کاامکان ہے۔

اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصدکے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سیلاب کے بعد ترسیلات زر میں اضافے کی امیدکی جا رہی ہے،جبکہ منصوبے کے مطابق اگر سرکاری آمدن مقررہ وقت پر موصول ہوگئی تو دسمبر 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

حکومتی اخراجات میں اضافے اور محصولات میں ممکنہ سست روی کے باعث مالی گنجائش محدود ہونے کاخدشہ ہے۔

اسٹیٹ بینک نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینااور خسارے میں چلنے والے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

دوسری جانب، سیلاب کے باوجود نجی شعبے میں قرضوں کی طلب میں موجودہ رفتار برقرار رہنے کی توقع ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ جولائی 2025 میں افراط زر 4.1 فیصد جبکہ اگست میں 3 فیصد رہی، تاہم سیلاب کے بعدخوراک کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی میں اضافہ ہوگیاہے،رواں مالی سال میں مہنگائی 5 سے 7 فیصدکے ہدف سے تجاوزکر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • سعودی عرب کو نیوکلیئر ہتھیار سے اپنے تحفظ کا اختیار مل گیا، خبر ایجنسی
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • وزیر تجارت جام کمال خان کی ایرانی اول نائب صدر سے ملاقات، پاک ایران تجارتی تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے معاشی بحالی کا روڈ میپ پیش کردیا
  • اسحاق ڈار کو جرمن وزیرخارجہ کا فون، علاقائی و عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • پاکستان اور ایران کا باہمی تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک