مہارشٹرا میں آتشزدگی کی افواہ پر ٹرین سے اترنے والے دوسری ریل نے کچل دیا، 12 ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
ممبئی: بھارتی ریاست مہارشٹرا میں ٹرین میں آگ لگنے کی افواہ کے نتیجے میں 12 مسافر ہلاک ہوگئے جبکہ مزید اموات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مہارشٹرا کے جل گاؤں میں ٹرین میں آتشزدگی کی افواہ پر مسافر خوف و ہراس کا شکار ہوئے اور متعدد نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی۔
متاثرہ ٹرین سے اترنے والے مسافر پٹڑی کو پار کر کے دوسری ٹرین میں بیٹھنے کے خواہش مند تھے مگر زندگی نے اُن کا ساتھ نہیں دیا اور ٹرین نے متعدد کو کچل دیا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔
جلگاؤں کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مہیشور ریڈی نے ہلاکتوں کی تصدیق کردی۔ یہ حادثہ ممبئی سے 400 کلومیٹر دور پچورا کے قریب مہیجی اور پردھاڈے اسٹیشنوں کے درمیان پیش آیا۔
جس ٹرین میں آتشزدگی کی افواہ پھیلی اُس کا نام پشپک ایکسپریس ہے اور یہ لکھنؤ سے ممبئی کے درمیان چلتی ہے۔
آتشزدگی کی افواہ پھیلتے ہی مسافروں نے زنجیر کھینچی تو ٹرین رک گئی جس کے بعد متعدد افراد نیچے اترے اور پٹڑی کراس کرنے کے دوران بنگلورو سے دہلی جانے والی کرناٹکا ایکسپریس کی زد میں آگئے۔
ریلوے کے سینئر اہلکار نے بتایا کہ پشپک ایکسپریس کی ایک بوگی میں چنگاریاں نکلنے کے بعد افواہ پھیل گئی تھی۔ جس پر مسافر خوف زدہ ہوئے۔
حادثے میں زخمی ہونے والے مسافروں کو ریسکیو کر کے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر ریلوے نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی اور واقعے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔