ایس آئی ایف سی اجلاس؛ جاری منصوبوں اور پالیسی اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی ) کے اجلاس میں مختلف شعبوں کے تحت جاری منصوبوں اور پالیسی اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
ایس آئی ایف سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا 12 واں اجلاس آج منعقد ہوا جس کی صدارت وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات نے کی، اجلاس میں وفاقی وزرا، نیشنل کوآرڈینیٹر ایس آئی ایف سی، وفاقی سیکرٹریز، صوبائی چیف سیکرٹریز اور اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران نے شرکت کی۔
اجلاس میں مختلف وزارتوں نے ایس آئی ایف سی کے فورم کے ذریعے چلائے جانے والے پراجیکٹس اور پالیسی سطح کے اقدامات پر پیشرفت پیش کی، کمیٹی نے صنعت، زراعت و لائیواسٹاک، کانوں و معدنیات، تیل و گیس اوربندرگاہوں جیسے اہم شعبوں سے متعلق پالیسی پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال اور اتفاق رائے پیدا کیا۔
اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت 11 ویں ایپکس کمیٹی اجلاس میں خصوصی اقتصادی زونز کے منظور کیے گئے فریم ورک میں تجدید شدہ نقطہ نظر پر تیز عمل درآمد کی ہدایات دی گئیں، کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قریبی ہم آہنگی اور تعاون ضروری ہے۔
کمیٹی نے گودام اور لاجسٹکس کے شعبے کو صنعت کا درجہ دینے کے لیے جاری کوششوں کو سراہا اور منظوری کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایات دیں، اس پالیسی اقدام کا مقصد برآمدات، زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کو سپورٹ کرنے کے لیے جدید سپلائی چین کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کو غیر مقفل کرنا ہے، نیزاس اقدام سے پاکستان کو عالمی اور علاقائی سپلائی چین میں ایک ترجیحی ملک کے طور پر جگہ دی جاسکتی ہے۔
کمیٹی نے بندرگاہوں اور جہاز رانی کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق مختلف پہلوؤں پر تیز عمل درآمد کی بھی ہدایات جاری کیں،کمیٹی کی ہدایات کے مطابق برآمدات اور درآمدات کو آسان بنانے کے لیے ٹرمینل ہینڈلنگ کو بہتر بنانا شامل ہے۔
کمیٹی نے ایس آئی ایف سی کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے پالیسی سطح کے اقدامات اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ذریعے مختلف زیر التوا کراس سیکٹرل معاملات کو تیز کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔
اس اجلاس کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو مزید بہتر بنانا اورمختلف شعبوں میں ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا، تاکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا مضبوط مقام بناسکے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایس آئی ایف سی اجلاس میں کمیٹی نے کے لیے
پڑھیں:
قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) محکمہ موسمیات سے ادارے کی بارش سے متعلقہ پیشگوئی پر سوالات پوچھ لیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس ہوا، جس میں ڈی جی محکمہ موسمیات نے شرکاء کو بریفنگ دی۔
اس موقع پر پی پی پی کے منور علی تالپور نے کہا ہے کہ ایک بار محکمہ موسمیات نے 4 دن کی بارش بتائی، ایک قطرہ بھی برسات نہیں ہوئی۔
پی پی پی شازیہ مری نے کہا کہ محکمہ موسمیات جس دن بارش بتاتا ہے اس دن بارش نہیں ہوتی، جس دن محکمہ موسمیات کہتا ہے آج بارش نہیں ہوگی اس دن ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بارش کا سن کر چھتری لے کر نکلتے ہیں تو بارش ہی نہیں ہوتی، بتایا جائے کہ محکمہ موسمیات کا بجٹ کتنا ہے اور ملازمین کتنے ہیں۔
ڈی جی محکمہ موسمیات نے بتایا کہ ہمارے ملک بھر میں 120 سینٹرز ہیں، جہاں سے ہر گھنٹے ڈیٹا آتا ہے، میٹ ڈپارٹمنٹ کا بجٹ 4 ارب اور ملازمین کی تعداد 2 ہزار 430 ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کہا گیا تھا کہ سندھ کو سپر فلڈ ہٹ کرے گا، ہم نے پہلے دن سے کہا تھا سندھ کو سپر فلڈ ہٹ نہیں کرے گا، ہماری اتنی محنت کے باوجود ہمارا نام نہیں لیا جاتا۔
ڈی جی محکمہ موسمیات نے مزید کہا کہ اپریل کے آخر میں مون سون سے متاثرہ 10ممالک کا اجلاس ہوا، جنوبی ایشیا کلائمنٹ فورم میں بھی خطے کی معلومات شیئر ہوئی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مئی کے درجہ حرارت کی بنیاد پر کئی گئی فورکاسٹ میں پاکستان اور بھارت میں معمول سے زیادہ بارشیں تھیں، 29 مئی کو زیادہ بارشوں سےمتعلق بتادیا تھا، اس دفعہ محکمہ موسمیات کی بات سنی ہی نہیں گئی۔
فیڈرل فلڈ کمشنر نے بتایا کہ 22 جولائی کو کراچی میں 1 گھنٹے میں 160 ملی میٹر بارش ہوئی، اسلام آباد میں 22 جولائی کو 184 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
اس پر شازیہ مری نے سوال اٹھایا کہ کیا ماضی میں بھی اسلام آباد میں اتنی بارش ہوئی جتنی اس بار ہوئی؟
ڈی جی محکمہ موسمیات نے جواب دیا کہ جولائی2001ء میں یہاں 600 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سب اداروں کو بتا دیا تھا کہ تیز بارشیں آئیں گی، ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ ملک میں سیلاب آئیں گے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ہم کسی دن محکمہ موسمیات چلے جاتے ہیں، سسٹم کا جائزہ لے لیتے ہیں، دیکھیں گے محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں کیوں نہیں درست ہوتیں، یہ بھی دیکھیں گے کہ محکمہ موسمیات کے پاس ٹیکنالوجی کونسی ہے۔