اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کے وجود کو موسمیاتی تبدیلی اور بے ضابطہ مصنوعی ذہانت کی صورت میں سنگین خطرات لاحق ہیں لیکن ان سے نمٹنے کے لیے درکار کثیرفریقی تعاون کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔

سوئزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، یہ حقیقت واضح ہے کہ جنگوں سے لے کر عدم مساوات اور انسانی حقوق پر حملوں تک بہت سے بڑے مسائل بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں لیکن دنیا ان پر قابو پانے کے لیے درست راہ پر گامزن نہیں ہے۔

اب انسانیت کے وجود کو محض جوہری ہتھیاروں سے ہی خطرہ لاحق نہیں بلکہ موسمیاتی بحران اور مصنوعی ذہانت کا بے قابو پھیلاؤ بھی اسی قدر خطرناک ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

Tweet URL

اس اجلاس میں دنیا بھر سے اعلیٰ سطحی سیاست دان، سربراہان ریاست اور بعض بڑے اور انتہائی بااثر کاروباری اداروں کے منتظمین (سی ای او) 'جدید ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی کے دور میں باہمی تعاون' کے موضوع پر بات چیت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

'معدنی ایندھن کی لت'

سیکرٹری جنرل نے معدنی ایندھن کے استعمال کو انتہائی خطرناک اور تباہ کن 'لت' قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تیل کی تجارت کے لیے استعمال ہونے والی 13 بڑی بندرگاہوں کو سطح سمندر میں اضافے سے خطرہ لاحق ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور سمندری برف پگھلنے کا نتیجہ ہے جبکہ یہ مسائل بڑی حد تک کوئلہ، خام تیل اور قدرتی گیس استعمال کرنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔

انہوں نے معدنی ایندھن کے استعمال کو محدود مدتی، خودغرضانہ اور خودکش اقدام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ایندھن سے کام لینے کے حامی تاریخ اور سائنس کی غلط سمت میں اور مزید استحکام کے خواہاں صارفین کے مخالف کھڑے ہیں۔

انتونیو گوتیرش نے رواں سال کے اختتام پر برازیل میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) کا تذکرہ کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ انہیں اس کانفرنس سے پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے نئے منصوبے پیش کرنا ہوں گے جو ان کی پوری معیشت کا احاطہ کریں۔

ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں، حکومتوں کو ہی نہیں بلکہ تمام کاروباروں اور مالیاتی اداروں کو بھی ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے حوالے سے مضبوط اور جوابدہ منصوبے تخلیق کرنا ہوں گے۔

مصنوعی ذہانت: امکانات اور خطرات

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مصنوعی ذہانت دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔

یہ پہلے ہی سیکھنے، بیماریوں کی تشخیص اور کسانوں کو اپنی پیداوار بڑھانے اور امداد کے مستحق لوگوں کی نشاندہی کے عمل میں بہت بڑی اور مثبت تبدیلی لا رہی ہے۔

تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ اس ٹیکنالوجی کے بے ضابطہ رہنے کی صورت میں انسان کو بہت بڑے مسائل بھی لاحق ہوں گے۔ اس طرح اداروں پر اعتماد کمزور پڑ جائے گا اور عدم مساوات بڑھ جائے گی۔

گزشتہ سال ستمبر میں مستقبل کے معاہدے کے ساتھ طے پانے والا عالمی بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے بے پایاں امکانات سے فائدہ اٹھانے اور ڈیجیٹل تقسیم کو پاٹنے کا لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔ اس میں مصنوعی ذہانت کو انسان کے لیے نقصان دہ کے بجائے فائدہ مند بنانے کا مشترکہ تصور بھی شامل ہے۔

یکجائی کی اپیل

انہوں نے کہا کہ مسائل کے باوجود اقوام متحدہ اپنے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ممالک کی خودمختاری، سیاسی آزادی اور علاقائی سالمیت کی بنیاد پر امن کا مطالبہ ترک نہیں کرے گا۔

عالمی مالیاتی ڈھانچے سے لے کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک ہر جگہ اصلاحات لانا ضروری ہے کیونکہ بیشتر انتظامی ڈھانچے دور حاضر کے مسائل سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مستقبل کے معاہدے میں عالمی رہنماؤں نے جو تبدیلیاں لانے کا وعدہ کیا ہے وہ سیاسی عزم کی بدولت ہی ممکن ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں عالمی رہنماؤں کے طرزعمل سے مطمئن نہیں ہیں۔

اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ دنیا کے وجود کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے یکجا ہو کر اقدامات اٹھائیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موسمیاتی تبدیلی مصنوعی ذہانت انہوں نے نے کہا کے لیے

پڑھیں:

امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے  ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔

عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔

کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو  33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔

جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔

اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • چین ، روس ، شمالی کوریا اور پاکستان سمیت کئی ممالک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مصنوعی ذہانت
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل