Express News:
2025-07-25@23:44:32 GMT

ذیابیطس قسم اول کا سہل علاج دریافت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ایک انسان اسی وقت حرکت کر کے کام کاج کرتا اور ہنسی خوشی اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے جب اس کے تمام سینتیس اڑتیس ارب خلیوں کو توانائی میسر آئے۔ جب ہم خصوصاً کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں تو اس غذا میں شامل شکر جسم میں پہنچ کر گلوکوز میں بدل جاتی ہے، جو خون کا حصہ بن کر پورے بدن میں حرکت کرتا ہے۔ تب ایک ہارمون، انسولین کی مدد سے یہ گلوکوز خلیوں کے اندر داخل کرتا ہے جسے وہ استعمال کر کے توانائی پاتے ہیں۔

گویا انسولین ہارمون وہ چابی ہے جس سے خلیوں کا دروازہ کھلتا اور گلوکوز اندر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ دروازہ نہ کھلے تو گلوکوز کی عدم موجودگی سے انسان مر بھی سکتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ بھی اسی کو استعمال کر کے توانائی پاتا ہے۔ مذید براں خون میں گلوکو ز کی مقدار بڑھ جانے سے بھی سنگین طبی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جان لیوا بن جاتی ہیں۔

انسولین ہارمون ہمارے لبلبے کے ایک خصوصی حصے، آیسلیٹز آف لینگرہینز ( islets of Langerhans) کے خلیے بناتے ہیں۔ بعض اوقات کسی طبی خلل کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام حملہ کر کے ان خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور وہ انسولین نہیں بنا پاتے۔ تب متاثرہ انسان کو مصنوعی طور پہ یہ ہارمون لینا پڑتا ہے تاکہ زندہ اور صحت مند رہ سکے۔ یہ طبی خلل طبی اصطلاح میں ’’ذیابیطس قسم اول‘‘ کہلاتا ہے۔ جبکہ کھانے پینے کی خراب عادات سے بھی انسولین کے اخراج کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ تب یہ منفی حالت ’’ذیابیطس قسم دوم ‘‘کہلاتی ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، ذیابیطس قسم اول کے مریض کو تاعمر مصنوعی انسولین لینا پڑتی ہے مگر اب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث اس طبی خلل کے موثر علاج کی سبیل جنم لے چکی۔ سائنس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کئی موذی امراض سے نجات دلوا چکی۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں پہلا طریق علاج ٹرانسپلانٹ کی صورت سامنے آیا۔ اس میں ایک صحت مند انسان کے ’آیسلیٹز آف لینگرہینز‘ سے کچھ حصے لے کر مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر مختلف ادویہ کی مدد سے ان آیسلیٹز آف لینگرہینز کی نشوونما کی جاتی ہے۔ یوں وہ پل بڑھ کر انسولین بنانے لگتے ہیں۔ اس طرح مریض کو مصنوعی انسولین سے نجات مل جاتی ہے۔ اس طریق علاج کی بدولت امیر ممالک میں کئی مریض ذیابیطس قسم اول سے نجات پا کر تندرست ہو چکے۔

اس طریق علاج کی قباحت مگر یہ ہے کہ یہ خاصا مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے نہیں برت سکتا۔ دوم مریض کو ساری زندگی ایسی ادویہ کھانا پڑتی ہیں جن کے باعث مریض کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ کیے گئے آیسلیٹز آف لینگرہینز پر حملہ نہ کر سکے۔ یہ ادویہ بھی خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ یوں مریض اس طریق علاج سے ذیابیطس قسم اول سے چھٹکارا تو پا لیتا ہے مگر اسے نئی پریشانیاں چمٹ جاتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پچاس ساٹھ کروڑ لوگ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ ان کروڑوں انسانوں کی مشکلات مدنظر رکھ کر ہی اللہ تعالی نے ان کے لیے ایک نیا مسیحا پیدا کر دیا، اس کا نام ڈینگ ہونگ کوئی (Deng Hongkui)ہے۔ ڈاکٹر ڈینگ پیکنگ یونیورسٹی،بیجنگ سے بطور خلویاتی حیاتیات داں منسلک ہیں۔

پچھلے سال ڈاکٹر ڈینگ کو خیال آیا کہ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا مریض سے اگر بنیادی خلیے لے کر انھیں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا یہ زیادہ بہتر طریق علاج نہیں ہو گا؟ اس طرح مریض کو وہ ادویہ نہیں لینا پڑیں گی جو مدافعتی نظام کو دبا کر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ یوں اُسے کم از کم ایک پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی ڈاکٹر ڈینگ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔

بیس سال قبل جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی سے منسلک محقق، شنایا یامانکا (Shinya Yamanaka) نے انسان کے خلیوں سے بنیادی خلیے (Stem Cells) بنانے کا طریق کار دریافت کیا تھا۔ بنیادی خلیے، خلیوں کی وہ خاص الخاص قسم ہیں جن کو کسی بھی طرح کے خلیوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ چناں چہ ڈاکٹر ڈینگ نے ذیابیطس قسم اول کے تین مریضوں کے جسم سے چکنائی (Fat) کے خلیے لیے اور جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے انھیں بنیادی خلیوں میں تبدیل کر دیا۔

اب اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ لیبارٹری میں جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد ہی سے ان بنیادی خلیوں کو آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ تیار شدہ خلیے پھر ایسے چوہوں کے جسم میں نصب یا ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جو ذیابیطس قسم اول میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ یہ طریق کار کس قسم کی خوبیاں اور خامیاں رکھتا ہے۔

چوہوں کے جسم میں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے پوری طرح نشوونما پا کر انسولین ہارمون بنانے لگے۔ اس دوران کسی قسم کے ضمنی نقائض نے جنم نہیں لیا۔ یوں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ جب ہر طرح سے تسلی ہو گئی کہ یہ تجربہ انسانوں پر بھی انجام دینا ممکن ہے تو منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔

اگست 2024ء میں تین مریضوں کے جسم کے اندر جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے تیار کردہ آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے ایسی موزوں جگہ ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جہاں وہ اچھی طرح پرورش پا سکیں۔ تین مریضوں میں ایک پچیس سالہ لڑکی نے تندرستی پانے میں سب سے زیادہ تیزی دکھائی۔ صرف تین ماہ بعد اس کے بدن میں نصب آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے انسولین بنانے لگے۔ یوں اسے مصنوعی انسولین کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اب ہر شے کھانے کے قابل ہو چکی اور ہنسی خوشی زندگی گذار رہی ہے۔

یوں ڈاکٹر ڈینگ کے ذہن رسا نے ذیابیطس قسم اول سے نجات کے لیے جو تکنیک ایجاد کی، وہ کامیاب رہی۔ پچیس سالہ لڑکی اس طریق علاج سے صحت یاب ہونے والی پہلی لڑکی بن گئی۔ ڈاکٹر ڈینگ اب ساتھیوں کے ساتھ اس تکنیک کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ سستا بنا لیا جائے۔ یوں تب ذیابیطس قسم اول کا نشانہ بنے دنیا کے کروڑوں مرد، عورتیں اور بچے اس نئے طریق علاج سے مستفید ہو کر موذی بیماری سے نجات پا سکیں گے۔ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آ جائے گی اور زندگی گذارنا آسان و خوشگوار عمل بن سکے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ذیابیطس قسم اول اس طریق علاج ڈاکٹر ڈینگ خلیوں میں کی مدد سے کے خلیوں مریض کو سے نجات کے خلیے کر دیا کے جسم

پڑھیں:

اٹامک انرجی ہسپتال مظفرآباد خطے کے لیے وفاق کی جانب سے بہترین تحفہ ہے؛ چوہدری انوار الحق

سٹی 42 : وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ اٹامک انرجی ہسپتال مظفرآباد خطے کے لیے وفاق کی جانب سے بہترین تحفہ ہے۔ 

وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے وفاقی حکومت کے تعاون سے نو تعمیر شدہ اٹامک انرجی کینسر ہسپتال مظفر آباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ہسپتال کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ چوہدری انوار الحق نے ہسپتال میں مریضوں کو فراہم کی جانے والی علاج معالجہ کی سہولیات کا جائزہ بھی لیا۔ 

مون سون بارشیں, پی ڈی ایم اے کا الرٹ جاری

 ڈائریکٹر جنرل  این ایم  او ڈاکٹر شازیہ فاطمہ نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو ہسپتال کے مختلف شعبہ جات بارے تفصیلی بریفنگ دی۔ انہیں ہسپتال میں کینسر کی مختلف اقسام کی تشخیص اور علاج کے لیے دستیاب جدید مشینری بارے بھی  بریفنگ دی گئی ۔ 

چوہدری انوار الحق نے کہا کہ اٹامک  انرجی  ہسپتال مظفرآباد خطے کے لیے وفاق کی جانب سے بہترین تحفہ ہے، مستقبل میں مختلف اقسام کے کینسرز کی تشخیص اور بروقت علاج کے لیے اس ہسپتال کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خواہش تھی آزاد کشمیر کی عوام کے لئے ایک بہترین کینسر ہسپتال قائم ہو ۔ ہسپتال کی ضروریات کے لیے محکمہ صحت آزاد کشمیر اٹامک انرجی ہسپتال مظفر آباد کو ہر ممکن آپریشنل تعاون فراہم کرے گا ۔ 

معروف برطانوی گلوکار  انتقال کر گئے

وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ یہاں ہسپتال کا انفراسٹرکچر اور  سٹیٹ آف دی آرٹ مشینری دیکھ کر دلی خوشی ہوئی، صحت کے مسائل کا خاتمہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ۔ انہوں نےکہا کہ 5.4ارب کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے  والا یہ ہسپتال کینسر جیسے مہلک  امراض  کے علاج معالجے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔

متعلقہ مضامین

  • ویسٹ انڈیز میں دنیا کا سب سے چھوٹا انوکھا سانپ 20 برس بعد دوبارہ دریافت
  • خاتونِ اول آصفہ بھٹو کا بچوں کے اسپتالوں کا دورہ، ننھے بچوں سے ملاقات
  • دیرپا کیمیکل سے ذیابیطس کا خطرہ 31 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، تحقیق
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • خاموش سمندر کی گواہی: دوسری جنگِ عظیم کا گمشدہ جاپانی جنگی جہاز کتنے سال بعد دریافت کرلیاگیا
  • اٹامک انرجی ہسپتال مظفرآباد خطے کے لیے وفاق کی جانب سے بہترین تحفہ ہے؛ چوہدری انوار الحق
  • خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ پر 37 ارب روپے خرچ