Express News:
2025-11-03@14:25:39 GMT

ذیابیطس قسم اول کا سہل علاج دریافت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ایک انسان اسی وقت حرکت کر کے کام کاج کرتا اور ہنسی خوشی اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے جب اس کے تمام سینتیس اڑتیس ارب خلیوں کو توانائی میسر آئے۔ جب ہم خصوصاً کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں تو اس غذا میں شامل شکر جسم میں پہنچ کر گلوکوز میں بدل جاتی ہے، جو خون کا حصہ بن کر پورے بدن میں حرکت کرتا ہے۔ تب ایک ہارمون، انسولین کی مدد سے یہ گلوکوز خلیوں کے اندر داخل کرتا ہے جسے وہ استعمال کر کے توانائی پاتے ہیں۔

گویا انسولین ہارمون وہ چابی ہے جس سے خلیوں کا دروازہ کھلتا اور گلوکوز اندر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ دروازہ نہ کھلے تو گلوکوز کی عدم موجودگی سے انسان مر بھی سکتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ بھی اسی کو استعمال کر کے توانائی پاتا ہے۔ مذید براں خون میں گلوکو ز کی مقدار بڑھ جانے سے بھی سنگین طبی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جان لیوا بن جاتی ہیں۔

انسولین ہارمون ہمارے لبلبے کے ایک خصوصی حصے، آیسلیٹز آف لینگرہینز ( islets of Langerhans) کے خلیے بناتے ہیں۔ بعض اوقات کسی طبی خلل کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام حملہ کر کے ان خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور وہ انسولین نہیں بنا پاتے۔ تب متاثرہ انسان کو مصنوعی طور پہ یہ ہارمون لینا پڑتا ہے تاکہ زندہ اور صحت مند رہ سکے۔ یہ طبی خلل طبی اصطلاح میں ’’ذیابیطس قسم اول‘‘ کہلاتا ہے۔ جبکہ کھانے پینے کی خراب عادات سے بھی انسولین کے اخراج کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ تب یہ منفی حالت ’’ذیابیطس قسم دوم ‘‘کہلاتی ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، ذیابیطس قسم اول کے مریض کو تاعمر مصنوعی انسولین لینا پڑتی ہے مگر اب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث اس طبی خلل کے موثر علاج کی سبیل جنم لے چکی۔ سائنس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کئی موذی امراض سے نجات دلوا چکی۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں پہلا طریق علاج ٹرانسپلانٹ کی صورت سامنے آیا۔ اس میں ایک صحت مند انسان کے ’آیسلیٹز آف لینگرہینز‘ سے کچھ حصے لے کر مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر مختلف ادویہ کی مدد سے ان آیسلیٹز آف لینگرہینز کی نشوونما کی جاتی ہے۔ یوں وہ پل بڑھ کر انسولین بنانے لگتے ہیں۔ اس طرح مریض کو مصنوعی انسولین سے نجات مل جاتی ہے۔ اس طریق علاج کی بدولت امیر ممالک میں کئی مریض ذیابیطس قسم اول سے نجات پا کر تندرست ہو چکے۔

اس طریق علاج کی قباحت مگر یہ ہے کہ یہ خاصا مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے نہیں برت سکتا۔ دوم مریض کو ساری زندگی ایسی ادویہ کھانا پڑتی ہیں جن کے باعث مریض کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ کیے گئے آیسلیٹز آف لینگرہینز پر حملہ نہ کر سکے۔ یہ ادویہ بھی خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ یوں مریض اس طریق علاج سے ذیابیطس قسم اول سے چھٹکارا تو پا لیتا ہے مگر اسے نئی پریشانیاں چمٹ جاتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پچاس ساٹھ کروڑ لوگ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ ان کروڑوں انسانوں کی مشکلات مدنظر رکھ کر ہی اللہ تعالی نے ان کے لیے ایک نیا مسیحا پیدا کر دیا، اس کا نام ڈینگ ہونگ کوئی (Deng Hongkui)ہے۔ ڈاکٹر ڈینگ پیکنگ یونیورسٹی،بیجنگ سے بطور خلویاتی حیاتیات داں منسلک ہیں۔

پچھلے سال ڈاکٹر ڈینگ کو خیال آیا کہ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا مریض سے اگر بنیادی خلیے لے کر انھیں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا یہ زیادہ بہتر طریق علاج نہیں ہو گا؟ اس طرح مریض کو وہ ادویہ نہیں لینا پڑیں گی جو مدافعتی نظام کو دبا کر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ یوں اُسے کم از کم ایک پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی ڈاکٹر ڈینگ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔

بیس سال قبل جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی سے منسلک محقق، شنایا یامانکا (Shinya Yamanaka) نے انسان کے خلیوں سے بنیادی خلیے (Stem Cells) بنانے کا طریق کار دریافت کیا تھا۔ بنیادی خلیے، خلیوں کی وہ خاص الخاص قسم ہیں جن کو کسی بھی طرح کے خلیوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ چناں چہ ڈاکٹر ڈینگ نے ذیابیطس قسم اول کے تین مریضوں کے جسم سے چکنائی (Fat) کے خلیے لیے اور جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے انھیں بنیادی خلیوں میں تبدیل کر دیا۔

اب اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ لیبارٹری میں جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد ہی سے ان بنیادی خلیوں کو آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ تیار شدہ خلیے پھر ایسے چوہوں کے جسم میں نصب یا ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جو ذیابیطس قسم اول میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ یہ طریق کار کس قسم کی خوبیاں اور خامیاں رکھتا ہے۔

چوہوں کے جسم میں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے پوری طرح نشوونما پا کر انسولین ہارمون بنانے لگے۔ اس دوران کسی قسم کے ضمنی نقائض نے جنم نہیں لیا۔ یوں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ جب ہر طرح سے تسلی ہو گئی کہ یہ تجربہ انسانوں پر بھی انجام دینا ممکن ہے تو منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔

اگست 2024ء میں تین مریضوں کے جسم کے اندر جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے تیار کردہ آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے ایسی موزوں جگہ ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جہاں وہ اچھی طرح پرورش پا سکیں۔ تین مریضوں میں ایک پچیس سالہ لڑکی نے تندرستی پانے میں سب سے زیادہ تیزی دکھائی۔ صرف تین ماہ بعد اس کے بدن میں نصب آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے انسولین بنانے لگے۔ یوں اسے مصنوعی انسولین کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اب ہر شے کھانے کے قابل ہو چکی اور ہنسی خوشی زندگی گذار رہی ہے۔

یوں ڈاکٹر ڈینگ کے ذہن رسا نے ذیابیطس قسم اول سے نجات کے لیے جو تکنیک ایجاد کی، وہ کامیاب رہی۔ پچیس سالہ لڑکی اس طریق علاج سے صحت یاب ہونے والی پہلی لڑکی بن گئی۔ ڈاکٹر ڈینگ اب ساتھیوں کے ساتھ اس تکنیک کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ سستا بنا لیا جائے۔ یوں تب ذیابیطس قسم اول کا نشانہ بنے دنیا کے کروڑوں مرد، عورتیں اور بچے اس نئے طریق علاج سے مستفید ہو کر موذی بیماری سے نجات پا سکیں گے۔ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آ جائے گی اور زندگی گذارنا آسان و خوشگوار عمل بن سکے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ذیابیطس قسم اول اس طریق علاج ڈاکٹر ڈینگ خلیوں میں کی مدد سے کے خلیوں مریض کو سے نجات کے خلیے کر دیا کے جسم

پڑھیں:

پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل

پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

لاہور (آئی پی ایس )پاکستان کے صحت کے شعبے میں ایک تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی)جگر کے 1000 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے دنیا کے بڑے ٹرانسپلانٹ مراکز میں شامل ہو گیا ہے۔پی کے ایل آئی وہ خواب ہے جو وزیراعظم شہباز شریف نے بطور وزیراعلی پنجاب 2017 میں دیکھا تھا۔ ایک ایسا ادارہ جو پاکستان کے عوام کو جگر اور گردے کی بیماریوں کے علاج کی بین الاقوامی معیار کی سہولتیں ملک میں ہی فراہم کرے۔ آج وہ خواب حقیقت بن چکا ہے، اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں اس ادارے کی بدولت بچائی جا چکی ہیں۔پی کے ایل آئی اب تک جگر کے 1000 ٹرانسپلانٹس کے علاوہ، 1100 گردے اور 14 بون میرو ٹرانسپلانٹس کے ساتھ 40 لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج فراہم کر چکا ہے۔

اس وقت تقریبا 80 فیصد مریضوں کو جدید ٹیکنالوجی اور عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے علاج کے اخراجات 60 لاکھ روپے تک ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت انتہائی کم ہیں۔یہی وہ منصوبہ تھا جسے بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قومی مفاد برخلاف اقدامات اور بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔ پی کے ایل آئی کے فنڈز منجمد کیے گئے، انتظامیہ کو غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا، اور سب سے افسوسناک فیصلہ یہ کیا گیا کہ عالمی معیار کے ٹرانسپلانٹ سینٹر کو کووڈ اسپتال میں بدل دیا گیا۔دنیا کی طبی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں کہ ایک جدید ترین ٹرانسپلانٹ سینٹر کو قرنطینہ ہسپتال میں تبدیل کر کے بند کر دیا جائے۔اس نتیجے میں 2019 میں صرف چار جگر کے ٹرانسپلانٹ کیے جا سکے۔ تاہم، جب 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف نے دوبارہ حکومت سنبھالی، تو انہوں نے اس قومی اثاثے کو بحال کیا، وسائل فراہم کیے اور ایک بار پھر ادارے کو اپنے اصل مقصد کی جانب گامزن کیا۔نتیجتا، 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد کامیاب جگر کے ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، بیرونِ ملک جگر کے ٹرانسپلانٹ پر اوسطا 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر خرچ آتا ہے، جس میں سفری اخراجات، قیام اور ذہنی اذیت شامل نہیں۔ ماضی میں ہر سال تقریبا 500 پاکستانی مریض علاج کے لیے بھارت جاتے تھے، جہاں نہ صرف کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے بلکہ غیر انسانی رویے کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔پی کے ایل آئی نے ان تمام مشکلات کا خاتمہ کرتے ہوئے علاج کے دروازے ملک کے اندر ہی کھول دیے ہیں، جس سے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا گیا ہے۔پی کے ایل آئی صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں، بلکہ اس کے یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجریز کے شعبے بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی خصوصی سرپرستی اور عملی تعاون سے یہ ادارہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انتظامیہ کے مطابق، پی کے ایل آئی اب نہ صرف ایک ہسپتال بلکہ قومی وقار، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔یہ ادارہ وزیراعظم شہباز شریف کے ویژن، قومی خدمت کے جذبے اور عزم کا عملی ثبوت ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری بین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے، مریم نواز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد:سرکاری اسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں ڈینگی سے متاثرہ مریض زیر علاج ہیں
  • ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
  • پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں صحت کارڈ پر مفت علاج معطل
  • پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ،ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع
  • نایاب وولف اسپائیڈر 40 سال بعد دوبارہ برطانیہ میں دریافت
  • پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کیلئے کامیاب بولیاں موصول، ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع