Express News:
2025-04-25@04:12:06 GMT

ذیابیطس قسم اول کا سہل علاج دریافت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ایک انسان اسی وقت حرکت کر کے کام کاج کرتا اور ہنسی خوشی اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے جب اس کے تمام سینتیس اڑتیس ارب خلیوں کو توانائی میسر آئے۔ جب ہم خصوصاً کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں تو اس غذا میں شامل شکر جسم میں پہنچ کر گلوکوز میں بدل جاتی ہے، جو خون کا حصہ بن کر پورے بدن میں حرکت کرتا ہے۔ تب ایک ہارمون، انسولین کی مدد سے یہ گلوکوز خلیوں کے اندر داخل کرتا ہے جسے وہ استعمال کر کے توانائی پاتے ہیں۔

گویا انسولین ہارمون وہ چابی ہے جس سے خلیوں کا دروازہ کھلتا اور گلوکوز اندر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ دروازہ نہ کھلے تو گلوکوز کی عدم موجودگی سے انسان مر بھی سکتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ بھی اسی کو استعمال کر کے توانائی پاتا ہے۔ مذید براں خون میں گلوکو ز کی مقدار بڑھ جانے سے بھی سنگین طبی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جان لیوا بن جاتی ہیں۔

انسولین ہارمون ہمارے لبلبے کے ایک خصوصی حصے، آیسلیٹز آف لینگرہینز ( islets of Langerhans) کے خلیے بناتے ہیں۔ بعض اوقات کسی طبی خلل کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام حملہ کر کے ان خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور وہ انسولین نہیں بنا پاتے۔ تب متاثرہ انسان کو مصنوعی طور پہ یہ ہارمون لینا پڑتا ہے تاکہ زندہ اور صحت مند رہ سکے۔ یہ طبی خلل طبی اصطلاح میں ’’ذیابیطس قسم اول‘‘ کہلاتا ہے۔ جبکہ کھانے پینے کی خراب عادات سے بھی انسولین کے اخراج کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ تب یہ منفی حالت ’’ذیابیطس قسم دوم ‘‘کہلاتی ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، ذیابیطس قسم اول کے مریض کو تاعمر مصنوعی انسولین لینا پڑتی ہے مگر اب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث اس طبی خلل کے موثر علاج کی سبیل جنم لے چکی۔ سائنس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کئی موذی امراض سے نجات دلوا چکی۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں پہلا طریق علاج ٹرانسپلانٹ کی صورت سامنے آیا۔ اس میں ایک صحت مند انسان کے ’آیسلیٹز آف لینگرہینز‘ سے کچھ حصے لے کر مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر مختلف ادویہ کی مدد سے ان آیسلیٹز آف لینگرہینز کی نشوونما کی جاتی ہے۔ یوں وہ پل بڑھ کر انسولین بنانے لگتے ہیں۔ اس طرح مریض کو مصنوعی انسولین سے نجات مل جاتی ہے۔ اس طریق علاج کی بدولت امیر ممالک میں کئی مریض ذیابیطس قسم اول سے نجات پا کر تندرست ہو چکے۔

اس طریق علاج کی قباحت مگر یہ ہے کہ یہ خاصا مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے نہیں برت سکتا۔ دوم مریض کو ساری زندگی ایسی ادویہ کھانا پڑتی ہیں جن کے باعث مریض کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ کیے گئے آیسلیٹز آف لینگرہینز پر حملہ نہ کر سکے۔ یہ ادویہ بھی خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ یوں مریض اس طریق علاج سے ذیابیطس قسم اول سے چھٹکارا تو پا لیتا ہے مگر اسے نئی پریشانیاں چمٹ جاتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پچاس ساٹھ کروڑ لوگ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ ان کروڑوں انسانوں کی مشکلات مدنظر رکھ کر ہی اللہ تعالی نے ان کے لیے ایک نیا مسیحا پیدا کر دیا، اس کا نام ڈینگ ہونگ کوئی (Deng Hongkui)ہے۔ ڈاکٹر ڈینگ پیکنگ یونیورسٹی،بیجنگ سے بطور خلویاتی حیاتیات داں منسلک ہیں۔

پچھلے سال ڈاکٹر ڈینگ کو خیال آیا کہ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا مریض سے اگر بنیادی خلیے لے کر انھیں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا یہ زیادہ بہتر طریق علاج نہیں ہو گا؟ اس طرح مریض کو وہ ادویہ نہیں لینا پڑیں گی جو مدافعتی نظام کو دبا کر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ یوں اُسے کم از کم ایک پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی ڈاکٹر ڈینگ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔

بیس سال قبل جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی سے منسلک محقق، شنایا یامانکا (Shinya Yamanaka) نے انسان کے خلیوں سے بنیادی خلیے (Stem Cells) بنانے کا طریق کار دریافت کیا تھا۔ بنیادی خلیے، خلیوں کی وہ خاص الخاص قسم ہیں جن کو کسی بھی طرح کے خلیوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ چناں چہ ڈاکٹر ڈینگ نے ذیابیطس قسم اول کے تین مریضوں کے جسم سے چکنائی (Fat) کے خلیے لیے اور جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے انھیں بنیادی خلیوں میں تبدیل کر دیا۔

اب اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ لیبارٹری میں جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد ہی سے ان بنیادی خلیوں کو آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ تیار شدہ خلیے پھر ایسے چوہوں کے جسم میں نصب یا ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جو ذیابیطس قسم اول میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ یہ طریق کار کس قسم کی خوبیاں اور خامیاں رکھتا ہے۔

چوہوں کے جسم میں آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے پوری طرح نشوونما پا کر انسولین ہارمون بنانے لگے۔ اس دوران کسی قسم کے ضمنی نقائض نے جنم نہیں لیا۔ یوں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ جب ہر طرح سے تسلی ہو گئی کہ یہ تجربہ انسانوں پر بھی انجام دینا ممکن ہے تو منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔

اگست 2024ء میں تین مریضوں کے جسم کے اندر جینیاتی انجئنیرنگ کی مدد سے تیار کردہ آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے ایسی موزوں جگہ ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے جہاں وہ اچھی طرح پرورش پا سکیں۔ تین مریضوں میں ایک پچیس سالہ لڑکی نے تندرستی پانے میں سب سے زیادہ تیزی دکھائی۔ صرف تین ماہ بعد اس کے بدن میں نصب آیسلیٹز آف لینگرہینز کے خلیے انسولین بنانے لگے۔ یوں اسے مصنوعی انسولین کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اب ہر شے کھانے کے قابل ہو چکی اور ہنسی خوشی زندگی گذار رہی ہے۔

یوں ڈاکٹر ڈینگ کے ذہن رسا نے ذیابیطس قسم اول سے نجات کے لیے جو تکنیک ایجاد کی، وہ کامیاب رہی۔ پچیس سالہ لڑکی اس طریق علاج سے صحت یاب ہونے والی پہلی لڑکی بن گئی۔ ڈاکٹر ڈینگ اب ساتھیوں کے ساتھ اس تکنیک کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ سستا بنا لیا جائے۔ یوں تب ذیابیطس قسم اول کا نشانہ بنے دنیا کے کروڑوں مرد، عورتیں اور بچے اس نئے طریق علاج سے مستفید ہو کر موذی بیماری سے نجات پا سکیں گے۔ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آ جائے گی اور زندگی گذارنا آسان و خوشگوار عمل بن سکے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ذیابیطس قسم اول اس طریق علاج ڈاکٹر ڈینگ خلیوں میں کی مدد سے کے خلیوں مریض کو سے نجات کے خلیے کر دیا کے جسم

پڑھیں:

نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ  بل 2025 منظور

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پنجاب اسمبلی نے نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ  بل 2025 منظور کرلیا۔بل کے تحت خود مختار ادارہ قائم کیا جائےگا جس کے بورڈ آف گورنرز، ایگزیکٹو کونسل اور ڈین سمیت ماہر ڈائریکٹرز کی تقرری ہوگی۔

تمام اہم عہدوں پر تقرری کے لیے اسپیشل سلیکشن بورڈ تشکیل دیا جائےگا۔ ادارے کے فنڈز کو سرکاری گرانٹس، عطیات اور عالمی امداد سے جوڑا جائےگا۔بل کے متن کے مطابق ادارے کو زمین خریدنے، رکھنے اور انتظام کرنےکا اختیار ہوگا۔بل کے مطابق سرکاری زمین کی فروخت یا منتقلی کے لیے حکومت کی منظوری ضروری ہوگی۔

دبئی سے آئی خاتون نے کسٹم ڈیوٹی مانگنے پر 10 تولے سونا ایئر پورٹ پر پھینک دیا، پھر کیا ہوا؟

پنجاب اسمبلی نے کینسرکی تشخیص سے متعلق قرارداد بھی کثرت رائے سے منظور کرلی۔قرارداد میں کہا گیا ہےکہ پنجاب سمیت ملک بھر میں کینسر کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ہرآٹھ میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہو رہی ہے،کینسر کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے سے اموات بڑھ رہی ہیں۔قرارداد میں کہا گیا کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے لیے صرف 410 بیڈز مختص ہیں، علاج و معالجے کے لیے جدید مشینری کی بھی شدید قلت ہے،کینسر کے مریضوں کو سرکاری سطح پر علاج معالجے کی جدید سہولیات فراہم کی جائیں۔

لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
  • توانائی نفسیات کیا ہے؟
  • ذیابیطس میں مبتلا افرادشدید گرمی میں کن مشروبات کا استعمال کرسکتے ہیں؟جانیں
  • سابق کپتان عروج ممتاز نے ڈاکٹر بن کر علاج بھی کرڈالا
  • برطانیہ، ہارٹ فیل کا علاج متعارف، اموات میں 62 فیصد کمی ممکن
  • لنڈی کوتل میں سیکیورٹی فورسز کا فری آئی میڈیکل کیمپ
  • ذیا بیطس کی نئی قسم دریافت؛ٹائپ 5 ذیابیطس قرار دیا
  • سائنس دانوں نے ذیا بیطس کی نئی قسم دریافت کرلی
  • نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ  بل 2025 منظور