لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی ایک گھنٹہ 39 منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میںکا شروع ہوا۔اجلاس میں بانی تحریک انصاف کی رہائی کیلئے اپوزیشن نے گذشتہ روز بھی ایوان میں احتجاج کیا اور سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر نعرے لگائے۔ اجلاس میں محکمہ لائیوسٹاک و ڈیریز سے متعلقہ سوالوں کے جوابات دیے جانے تھے تاہم  محکمہ کے وزیر اور سیکرٹری کی اس موقع پر ایوان میں عدم موجودگی پر پارلیمانی سیکرٹری کے جوابات دے رہے تھے،  اس پر اپوزیشن کے چیف وہپ رانا شہباز کی جانب سے ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزیر اور محکمہ کے سیکرٹری کی عدم موجودگی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب اسمبلی کے ایوان کو چلانے کے لئے قطعی سنجیدہ نہیں ہے، ایک بھی صوبائی وزیر اس وقت ایوان میں موجود نہیں۔ ڈپٹی سپیکر ملک ظہیر اقبال چنڑ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے چیف وہپ رانا شہباز بتائیں کہ ان کی جماعت کے ارکان اس وقت کہاں ہیں۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے محکمہ ڈیری کے حوالے سے دئیے گئے جوابات پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ میاں اعجاز شفیع نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی تین سو کے قریب تحریک التوا تاخیر کا شکار ہیں۔ تحریک التوا پیش کئے بغیر اسمبلی کی کارروائی کس طرح مکمل ہوسکتی ہے۔ جس پر سپیکر کا کہنا تھا کہ رولز پر بات نہ کریں اس پر لاء ریفارمز کمیٹی میں بات کریں۔ رکن اسمبلی عظمیٰ کاردار کا کہنا تھا کہ سوالات کا وقت مقرر کیا جائے، باقی ارکان کا وقت نہیں بچتا۔ اپوزیشن کے چیف وہپ رانا شہباز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کوئی وزیر نہیں ہے، جس محکمہ کے سوالات ہے،ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد کم ہے، میں پوائنٹ آرڈر پر بات نہیں کر رہا، جس پر ڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے کتنے ارکان ہیں ،رانا شہباز کا کہنا تھا کہ ہمارے ارکان تو احتجاج کر رہے ایوان میں آرہے ہیں۔ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ سیکرٹری لائیو سٹاک ایوان میں کیوں نہیں آئے ایوان سب سے اہم ہے۔اپوزیشن رکن سردار شہاب الدین نے مطالبہ کیا کہ اجلاس ملتوی کریں، سیکرٹری کو بلائیں، ایوان کو بے توقیر نہ کریں۔جواب آنے پرڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ سیکرٹری لائیو سٹاک چھٹی پر ہے۔رکن اسمبلی امجد علی جاوید کا کہنا تھا کہ میرے سوالات کا جواب درست نہیں ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے لائیوسٹاک کا امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ویٹرنری ہسپتالوں میں کوئی مسنگ فیسلٹی نہیں، امجد علی جاوید نے نشاندہی کی کہ محکمہ لائیو سٹاک کو 1250ملین بجٹ سے پہلے ملے خرچ صرف 18ملین کئے، دوسرے کوارٹر میں 1390ملین مگر 12ملین خرچ کئے، صوبائی وزیر اقلیتی امور رمیشن سنگھ اروڑا نے کہا کہ چیف منسٹر کا شکریہ ادا کرتا ہوں آج مینارٹی کارڈ کا آغاز کیا، پچاس ہزار خاندانوں کو اقلیت کارڈ دیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے کہا حکومت نے نوماہ کی کارکردگی میں اپنا فوکس تختیوں پر رکھا ہے ، 6.

1ارب ایجوکیشن کے لئے بجٹ میں رکھے گئے، پیسوں میں چودہ فیصد خرچ کیا۔ تعلیم کی حالت یہ سکول کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں۔ حکومت کی توجہ تعمیری کام سے ہٹ گئی ہے، آپ کی حکومت فارم 47 کے ذریعے آئی ہے، رجیم چنج سے ہی ن لیگ کی حکومت چل رہی ہے] پنجاب میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے] دس ماہ میں حکومت نے کیا کیا، سڑکیں بند کرنے اور تختیاں لگانے سے کیا ہوگا۔ دسمبر تک سنتیالیس ہزار سے سکول کی تعداد اٹھائیس ہزار رہ جائے گی، حکومت کے پاس مارچ میں بجٹ ختم ہو جاتا ہے۔ وائس چانسلر کے معاملے پر گورنر سے لڑائی ہوتی رہے، وائس چانسلر کس طرح لگ رہے سب کے سامنے ہے۔ ائیر ایمبولینس کی بہت تشہیر کی گئی، تب بھی حکومت کو کہا تھا پہلے ہیلتھ کا نظام ٹھیک کر لیں۔ چودھری افتخار چھچر نے پنجاب اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر کے طور پر جم خانہ کلب کی زمین پر عام شہری پارک بنانے کا بل پیش کر دیا۔ سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ عام شہری کی سرکاری زمین پر قائم دکان کا کرایہ ڈھائی ہزار فیصد بڑھا دیا گیا، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں جن کے کانٹریکٹ تھے۔ ان کے کانٹریکٹ ڈسٹ بن میں پھینک کر ایک دم سے کرائے بڑھا دئیے گئے۔ ہم سمجھ رہے تھے یہ کابینہ کا فیصلہ ہے لیکن بعد میں  معلوم ہوا کابینہ کی طرف سے کوئی آرڈر نہیں آیا۔ جمخانہ کو ایک ہزار ستر کنال زمین پچاس روپے پر کرایے پر دی گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ پچاس روپے بھی نہیں دے رہے ہیں۔ جمخانہ کلب کے ساتھ اتنی رعایت میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بعدازاں سپیکر پنجاب اسمبلی نے بل کمیٹی کو ریفر کردیا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: امجد علی جاوید کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی اپوزیشن کے ایوان میں کہا کہ

پڑھیں:

کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے

لاہور (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین- 16 ستمبر 2025 ) اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا گندم کی قیمت بے قابو ہو جانے کا اعتراف، کہا کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کے روز اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں کسانوں کے گھر چھاپوں کا معاملہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسانوں کی گندم نہیں خریدی جس سے کسان کا نقصان ہوا، پھر حکومت نے کہا اپنی گندم اسٹور کر لیں اور اب جب کسان نے گندم جمع کرلی تو کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ اس پر اسپیکر اسمبلی ملک احمد خان نے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک کسان نے کسی جگہ گندم رکھی ہے وہاں ظاہر ہے کئی کسانوں نے رکھی ہوگی، اب اسی جگہ کو ذخیرہ اندوزی کہا جائے تو یہ مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

اسپیکر اسمبلی نے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں کسان کہاں جائیں؟ انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کسانوں کے مسائل کو حل کرے اور صوبائی وزیر ذیشان رفیق معاملے کو دیکھیں کیونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسان سے بائیس سو میں گندم خریدی گئی اور آج قیمت چار ہزار پر چلی گئی ہے، اس کو حکومت کو دیکھنا چاہیے اور گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہیں پڑنے چاہیں۔ اس پر پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود رانجھا نے کسانوں کے گھروں پر گندم جمع کرنے کے معاملے پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرائی۔
                                                           

متعلقہ مضامین

  • مالدیپ کے سپیکر کی سربراہی میں وفد کی ایاز صادق سے ملاقات
  • پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشتگردی کیخلاف قرارداد منظور
  • پنجاب اسمبلی: سکولوں میں موبائل فونز پر پابندی، فلسطینیوں سے یکہجہتی سمیت 7 قراردادیں منظور
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے
  • پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف قرارداد منظور
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • لاہور، سپیکر پنجاب اسمبلی سے نئے ترک قونصل جنرل کی ملاقات
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟