ملک بھر میں روزمرہ کے بیشتر کھانوں کی تیاری میں ٹماٹروں کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے اور اسی طلب کے پیش نظر سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں بڑی تعداد میں ٹماٹر کی فصل کاشت کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایران سے بھی ٹماٹر درآمد کیے جاتے ہیں۔

ٹماٹر کی فصل جنوری میں تیار ہوتی ہے، ہرسال دسمبراورجنوری میں ٹماٹر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے گزشتہ ماہ دسمبر میں اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت 400 روپے تک پہنچ گئی تھی اور بیشتر مارکیٹ میں ٹماٹر دستیاب بھی نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پیاز اور ٹماٹر کی پیداوار بڑھانے کے لیے کاشتکاروں کو پنجاب حکومت کی انقلابی پیشکش

تاہم اب ٹماٹر کی قیمت انتہائی کم ہو گئی ہے اس وقت سبزی منڈیوں میں ٹماٹر 40 روپے فی کلوتک فروخت ہورہا ہے جو کہ 15 روز قبل عام مارکیٹوں میں 350 سے 400 روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔

مارکیٹ میں ٹماٹر کے ریٹ انتہائی کم ہونے کے باعث سندھ کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں زمینداروں نے ٹماٹر کی تیار فصل ٹریکٹر چلا کر ضائع کرنا شروع کردی ہے، زمینداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں ٹماٹر بہت زیادہ موجود ہیں اورریٹ انتہائی کم ہے۔

مزید پڑھیں:‘ہمیں ٹماٹر مل گیا’: خلا میں گم ہو جانے والا ٹماٹر کہاں تھا؟

’فصل کی تیاری میں جو اخراجات آئے ہیں وہ تو پورے نہیں ہوسکتے تواوپرسے فصل اتارکرپیٹی میں تیارکرکے منڈی لے جانے کے اخراجات نہیں کیے جاسکتے، کیونکہ اس سے نقصان میں مزید اضافہ ہوگا اس لیے بہتر یہی ہے کہ ٹماٹر کو زمین میں ہی ضائع کر دیا جائےاورآئندہ فصل کے لیے زمین کو تیارکیا جائے۔‘

اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ٹماٹر کے آڑھتی عدنان اکرام نے وی نیوز کو بتایا کہ سبزی منڈی میں اس وقت بہت زیادہ تعداد میں ٹماٹر موجود ہیں جو کہ جلد خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اس وجہ سے ریٹ انتہائی کم ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں:ٹماٹر پیوری کے ریویو پر خاتون کو جیل کیوں جانا پڑا؟

’ٹماٹر کی 9 کلو والی پیٹی کا ریٹ 300 سے 400 روپے ہو گیاہے جبکہ پرچون میں ٹماٹر 60 سے 70 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے، منڈی میں جب ٹماٹر کم تعداد میں موجود ہوتا ہے تو باہر دکانوں میں ٹماٹر 300 سے 400 روپے فی کلو تک میں فروخت ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‘

عدنان اکرام کے مطابق اس وقت ہول سیل ریٹ کم ہونے کے باوجود مارکیٹ میں ٹماٹر کا ریٹ 100 سے 180 روپے فی کلو ہے، دکانداروں کو چاہیے کہ اگر ان کو منڈی میں ریٹ میں کمی سے ریلیف ملتا ہے تو اسے آگے منتقل کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ناسا کا خلاباز 8 ماہ بعد ٹماٹر کھانے کے الزام سے بری

’ٹماٹر کے علاوہ دیگرسبزیوں کے ریٹ بھی منڈی میں کافی ہیں، پھول گوبھی، گاجراورشلجم 40 روپے فی کلو، ٹینڈے 50، شملہ مرچ 150 جبکہ سبزمرچ 100، مٹراور کدو 80 اور کھیرے 70 روپے فی کلو دستیاب ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد پھول گوبھی ٹماٹر ریٹ سبزمرچ سبزی منڈی سستے شلجم شملہ مرچ گاجر مارکیٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد ٹماٹر ریٹ سبزی منڈی سستے شملہ مرچ گاجر مارکیٹ انتہائی کم سبزی منڈی فروخت ہو منڈی میں

پڑھیں:

غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس

9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔

ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔

آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا  آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چینی کی قیمت میں 8روپے فی کلو کمی ہوگئی، ادارہ شماریات کا دعویٰ
  • ناکارہ پاور پلانٹس کا ملبہ 46.73 ارب میں فروخت، قیمت اسٹیٹ بینک ماہرین نے مقرر کی
  • سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بڑی کمی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • دریائے چناب میں مسلسل پانی کی سطح بلند، دریائی کٹاؤ میں بھی شدت آگئی
  • کھانے کے تیل میں ناجائز منافع خوری کا خوفناک اسکینڈل، صارفین سے 150 روپے فی لیٹر زیادہ وصولی
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • ملک بھر میں سونے کی قیمت میں 5,900 روپے کمی ریکارڈ
  • پاکستان میں سونے کی قیمت کو بریک لگ گئی، ہزاروں روپے کی بڑی کمی