پسند کی شادی کے بعد شوہر نے تشدد اور گلا دبا کر بیوی کو قتل کردیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
کراچی:
بلدیہ ٹاؤن میں پسند کی شادی کرنے والے شوہر نے تشدد اور گلا دبا کر بیوی کو قتل کردیا اور فرار ہوگیا۔ مقتولہ 2 بچوں کی ماں تھی۔
جمعرات کی صبح سعید آباد تھانے کے علاقے بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 12 ای میں گھر سے خاتون کی لاش ملی، جسے اس کے شوہرنے تشدد کانشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا۔ خاتون کی لاش ملنے کی اطلاع پرپولیس موقع پر پہنچی اور جائے وقوع سے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے کرائم سین یونٹ کو طلب کیا۔
بعد ازاں خاتون کی لاش قانونی کارروائی کے لیے سول اسپتال منتقل کی گئی، جہاں اس کی شناخت 22 سالہ صبا زوجہ عرفان کے نام سے کی گئی۔
ایس ایچ او سعید آباد ادریس بنگش نے بتایاکہ مقتولہ خاتون 2 بچوں کی ماں تھی اورخاتون کو اس کے شوہر عرفان نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا ہے۔
مقتولہ خاتون اورملزم عرفان نے چند برس قبل پسند کی شادی کی تھی ۔ ملزم عرفان نے بیوی کو قتل کرنے کے بعد اپنے سسر کو فون کیا اور کہا کہ گھر سے اپنی بیٹی کی لاش اٹھا لو ۔
پولیس کے مطابق ملزم عرفان صادق آباد کا رہائشی ہے اور بیوی کو قتل کرنے کے بعد موقع سےفرار ہو گیا، جس کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
مقتولہ خاتون کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کا داماد نشے کا عادی ہے اوراکثر نشے کی حالت میں ان کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا ، جس پر بیٹی ناراض ہوکر میکے آجایا کرتی تھی لیکن ملزم عرفان اسے فون کرتا تھا تو بیٹی گھر بسانے کی خواہش میں واپس چلی جایا کرتی تھی۔
مقتولہ خاتون کے والدین نے پولیس حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ان قاتل کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیوی کو قتل گلا دبا کر کی لاش کے بعد
پڑھیں:
کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔