پاراچنار کے علاوہ باقی سارا پاکستان شکست کھا چکا ہے!
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہمیں قومی مسائل کو افغانستان کے سہولتکاروں، مفاد پرست عناصر، ریاست کے دشمنوں، ضِدی، ہٹ دھرم، متعصب اور تنگ نظر افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ پاراچنار کو بار بار ریاست سے کاٹنے کا تجربہ کبھی بھی دانشمندانہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس حماقت کی نشاندہی کریں۔ اہالیانِ پاراچنار نے برسوں کے محاصرے کے باوجود دہشتگردوں سے شکست نہیں کھائی، لیکن باقی سارا پاکستان دہشتگردوں سے پاراچنار کو واپس لینے میں شکست کھا چکا ہے اور بحیثیتِ پاکستانی ہمارے لئے یہ بہت خوفناک سچائی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
nazarhaffi@gmail.
پاراچنار جانے والی روڈ پر کون قابض ہے؟ کیا صرف مسافر گاڑیاں ہی غیر محفوظ ہیں؟ سرکاری قافلے، فوجی گاڑیاں، ایمبولینسز اور اشیائے خوردونوش تک کا اس روڈ سے گزرنا ناممکن ہے۔ گزشتہ دنوں سات خواتین اور ایک بچی سمیت 44 مسافروں کے قتل نے ایک مرتبہ پھر پاراچنار روڈ کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ حکمران، سیاستدان، سکیورٹی فورس اور گرینڈ جرگہ ابھی تک لوگوں کو یہ نہیں بتا سکا کہ پشاور سے پاراچنار تک کے درمیانی علاقے پر کس کا قبضہ ہے۔؟ کیا ریاست کے اندر کوئی دہشت گرد گروہ اتنا قوّی ہے کہ پاک آرمی اُس سے ایک روڈ بھی آزاد نہ کرا سکے۔؟ اس خدشے کو اس وقت اور بھی تقویّت ملی، جب 16 جنوری 2025ء کو بگن میں کئی دہشت گرد جتھوں نے پاراچنار جانے والے سرکاری اہلکاروں پر حملہ کیا۔ انہوں نے کئی ٹرکوں سے اربوں کا سامان لوٹا، گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا، متعدد حکومتی ملازمین نیز ٹرک ڈرائیورز اور گاڑیوں میں موجود لوگوں کو شہید، اغوا اور لاپتہ کر دیا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ پاراچنار کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک دو سال کا معاملہ نہیں بلکہ کئی سالوں کا قصّہ ہے۔ پاراچنار کو شیعہ علاقہ کہہ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ یہاں سے گزرنے والے مسافروں کے مطابق اب کوئی مانے یا نہ مانے پشاور سے پاراچنار کے درمیانی علاقے میں دہشت گردوں کی جنت "ایک الگ ریاست" کا روپ دھار چُکی ہے۔ ذیشان حیدر ضلع کرم پاراچنار سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک اُستاد ہیں اور عوامِ علاقہ انہیں ماسٹر ذیشان حیدر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے علاقے کا رہنے والا ہوں کہ جو قدرتی حُسن سے تو مالا مال ہے، لیکن بدقسمتی سے بدامنی کا شکار ہے۔ یہ بدامنی قیامِ پاکستان سے چلی آرہی ہے اور ایسی بدامنی ہے کہ انسانیت بھی شرما جائے۔
یہاں کچھ چیزوں کو بطورِ ٹول استعمال کرکے ضلع کرم کو مسلکی جنگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر زمینی تنازعات کے سلسلے کو 1962ء پھر 1972ء اور 1987ء میں اور پھر 2007ء میں اہالیانِ ضلع کُرم پر ظلم کی انتہاء کی گئی۔ اس کے بعد 2012ء تک اس علاقے کو سارے پاکستان سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا۔ یوں چار سال تک پاراچنار کو ریاستِ پاکستان سے جدا رکھنے کا تجربہ کیا گیا۔ اس دوران مقامی آوازوں کو دبانے کیلئے پاراچنار میں مسلسل خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستانی قوم کو خودکُش دھماکے تو نظر آتے رہے، لیکن لوگ اس بات سے غافل رہے کہ پاراچنار اس وقت ریاستِ پاکستان سے کٹ چکا ہے۔ اگر آپ پاراچنار کے مقامی لوگوں سے گفتگو کریں تو مقامی لوگوں کی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ گویا ملک میں کسی ٹیبل پر پاراچنار کو پاکستان سے کاٹ کر افغانستان کی گود میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔
مقامی لوگ اس واقعے کو نہیں بھول سکتے، وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں سارے پاکستان کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا تو ہم نے اس مشکل وقت میں اپنے ملک کو بھی بچانا تھا اور اپنی زندگیوں کو بھی۔ ہمارے پاس سوائے مظلومانہ احتجاج کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم نے انتہائی مشکل حالات میں ملک دشمن سازشوں کا صبر اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ماسٹر ذیشان کے مطابق 2021ء تک ہم نے ملک دشمن عناصر کی ساری سازشوں کو خاک میں ملا دیا۔ چنانچہ زخم خوردہ عناصر نے پیواڑ میں ایک جنگل کا تنازعہ کھڑا کیا۔ انہوں نے 11 بندوں کو شہید کرکے ہمیں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی، لیکن ہم پہلے سے ہی دشمن کی سازشوں کو پہچان چکے تھے۔ اس ناکامی کے بعد شکست خوردہ ذہنیت نے تری منگل سکول میں اُستادوں کو شہید کر دیا۔ چار اساتذہ اور تین مزدوروں کو دن دیہاڑے کلہاڑیوں اور چھریوں کے وار کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ شہادتیں بھی وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ ہماری وفاداریوں کو تبدیل نہ کرسکیں۔ میڈیا اور سرکاری ادارے یہاں بھی اصل حقائق پر پردہ ڈالنے سے باز نہیں آئے۔
ماسڑ ذیشان کی بات جاری رہے گی، تاہم راقم الحروف کے مطابق مسافروں، مہمانوں، اپنے اُستادوں اور محسنوں کو قتل کرنا پختونوں اور اہلِ سُنّت کی اخلاقی و سماجی اقدار کے خلاف ہے۔ ماسٹر ذیشان اپنی رُندھی ہوئی آواز میں کہتے ہیں کہ سرکار نے اساتذہ کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیا۔ یہ خود بخود ریاست کی کمزوری اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس کے بعد ریاست کی کمزوری عیاں ہوگئی اور دہشت گردوں کی طرف سے عام عوام کا مسلسل قتلِ عام شروع ہوا اور گزشتہ چند سالوں میں سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کی گفتگو سے عیاں تھا کہ اگر ریاست کا بس چلتا تو ریاست یوں پاراچنار کے ننھے منے بچوں کو بھوک و پیاس اور غذائی قلت سے بلک بلک کر نہ مرنے دیتی۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ چاہے شیعہ ہیں یا اہلِ سُنّت، دونوں ہی مظلوم اور بے گناہ ہیں اور دونوں کو ہی بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔
ماسٹر صاحب کی باتوں سے یہ تلخ حقیقت جھلک رہی ہے کہ 21 اکتوبر 2024ء سے اب تک پشاور سے پاراچنار کا درمیانی علاقہ ایک مرتبہ پھر ریاستِ پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس وقت پاراچنار کے لوگ خود اپنی سرزمین کی حفاظت کر رہے ہیں، لیکن اس کے ارد گرد دہشت گردوں اور طالبان نیز افغان فورسز کی رِٹ قائم ہے۔ دوسری طرف ہمارے نزدیک یہاں پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوتے ہی افغان بارڈر پر سرحدی کشیدگی اور تناو میں نیز بلوچستان لبریشن آرمی اور پاکستان کے اندر بھی طالبان و طالبان نواز دھڑوں کی سرکشی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں افغان حکومت کی سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ نیا ثبوت پیش کیا ہے کہ اسی ماہ 11 جنوری کو بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں ہونے والی دہشت گردی میں محمد خاں احمد خیل ولد حاجی قاسم ملوث تھا کہ جو افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع وزیر خوا کے گائوں پلورائی کا رہائشی تھا۔
20 جنوری 2025ء کو اس دہشت گرد کی لاش افغان حکومت کے حکام کے حوالے کر دی گئی۔ یہ پاکستان میں افغانستان کی مداخلت کا ایک تازہ ثبوت ضرور ہے، لیکن پاکستان میں ہونے والی تمام تر دہشت گردی کے پیچھے افغان دہشت گرد ملوث پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم طالبان نواز دہشت گرد اور سرکاری سہولتکار افغان دہشت گردوں کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے متعدد علاقوں خصوصاً پشاور سے پاراچنار کے درمیانی علاقے پر ریاست کی رِٹ مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سرکاری ترجمان کے مطابق اس وقت بھی لوئر کرم کے مقبوضہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے، دن بھر گن شپ ہیلی کاپٹر کی پروازیں جاری رہیں، آپریشن کل بھی جاری رہے گا۔۔۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس منطقے میں اشیائے خوردونوش کی ترسیل کے بجائے اصل مسئلہ ریاست کی رِٹ کا ہے، جو کئی سالوں سے ریاست کھو چکی ہے۔ خودکش دھماکوں کی مانند غذائی قلت اور مسافروں پر حملے، قافلوں کی لوٹ مار جیسے مسائل دراصل ریاست کی کمزوری کی کھلی دلیل ہیں۔
ہماری ملت پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ کمزور اذہان کیلئے غوروفکر کرنا اُسی طرح مشکل ہے، جیسے کمزور کندھوں کیلئے کسی بھاری بوجھ کو اٹھانا۔ ریاست کا بوجھ کمزور اور تنگ نظر افراد نہیں اٹھا سکتے۔ کسی بھی تنگ نظر شخص کو آپ جتنے بھی حکیمانہ مشورے دیں، وہ اُن سے خیر کے بجائے شر ہی پھیلاتا ہے، چونکہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی آپ کی باتوں کی تفسیر کرتا ہے۔ لہذا ہمیں قومی مسائل کو افغانستان کے سہولتکاروں، مفاد پرست عناصر، ریاست کے دشمنوں، ضِدی، ہٹ دھرم، متعصب اور تنگ نظر افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ پاراچنار کو بار بار ریاست سے کاٹنے کا تجربہ کبھی بھی دانشمندانہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس حماقت کی نشاندہی کریں۔ اہالیانِ پاراچنار نے برسوں کے محاصرے کے باوجود دہشت گردوں سے شکست نہیں کھائی، لیکن باقی سارا پاکستان دہشت گردوں سے پاراچنار کو واپس لینے میں شکست کھا چکا ہے اور بحیثیتِ پاکستانی ہمارے لئے یہ بہت خوفناک سچائی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پشاور سے پاراچنار پاکستان میں پاراچنار کے پاکستان کے پاکستان سے مقامی لوگ ریاست کی ریاست کے کے مطابق کر دیا
پڑھیں:
مودی دہشت گردی کے جہادی جواب کی ضرورت
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاح نما افراد پر حملے کے بعد بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کے ساتھ ساتھ عملی کارروائیاں بھی جاری ہیں،کبھی اطلاع آتی ہے کہ۔ سندھ طاس معاہدہ عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور کبھی خبریں آتی ہیں کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ اٹاری بارڈر بند کردیا گیا ہے۔ بھارت پاکستان میں اپنے ہائی کمیشن سے عملہ واپس بلا رہا ہے اور پاکستانی سفارتی عملے کو بھی ملک چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ سارک ویزا استثنیٰ اسکیم (SVES) کے تحت پاکستانی شہریوں کو دئیے گئے موجودہ ویزے منسوخ کر دئیے گئے ہیں اور انہیں گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہ اقدامات کے بعد (جب پلواما حملہ ہوا تھا اور جس کی آڑ میں بھارت نے آرٹیکل منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی)بھارت کشیدگی کو چہار اطراف میں پھیلاتے ہوئے یوں تائثر دے رہا ہے کہ جیسے پہلگام میں سیکورٹی کی ذمہ داری پاکستان کی تھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی نے ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کی سیکورٹی پاکستان کو ٹھیکے پہ دے رکھی ہے کہ جب جب مقبوضہ کشمیر یا ہندوستان میں پہلگام ٹائپ کوئی واقعہ ہو جائے تو وہ ارتکاب کرنے والوں کا میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتا ہے، کون نہیں جانتا کہ روئے زمین کا سب سے بڑا دہشت گرد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود ہے یہ وہ بدترین انسانی قاتل ہے کہ جسے بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انٹرنیشنل میڈیا نے قصاب یعنی ’’قصائی‘‘کا لقب دے رکھا تھا یہ وہ بدمعاش قاتل ہے کہ گجرات میں قتل عام کے بعد امریکہ میں جس کے داخلے پر پابندی عائد تھی، انسانوں کا بدترین قاتل جب سال ہا سال سے بھارت کا وزیراعظم ہوگا صرف بھارت ہی نہیں ،ایسا قاتل دنیا کے کسی ملک کا بھی وزیراعظم بن جائے تو وہاں خون لاشیں اور بربادی انسانوں کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔
نریندر مودی کا وزیراعظم بننا اور وہ بھی بھارت کی سرزمین پر، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک یہ بدترین شخص بھارت کا وزیراعظم رہے گا بھارت میں ہندو توا دہشت گردی عروج پر رہے گی اور وہاں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا لہو پانی سے سستا سمجھ کر بہایا جاتا رہے گا، حیرت ہوتی ہے دہلی کے ان شاہ دماغوں پر کہ جو انڈین چینلز کے پروگراموں میں بندروں کی طرح اچھل اچھل کر پہلگام واقعے کا الزام پاکستان پر لگا رہے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ جیسے انڈین میڈیا صرف ’’را‘‘ فنڈڈ ہی نہیں، بلکہ موساد فنڈڈ بھی ہے، بندروں کی طرح اچھل اچھل کر پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کا الزام لگانے والے بھارتی دانش فروشوں سے کوئی پوچھے کہ تمہارا قاتل وزیراعظم تو سرعام بھارت کے عوامی جلسوں میں کبھی آزاد کشمیر کبھی کے پی کے اور کبھی بلوچستان کے حوالے دیتا ہے، پاکستان کے حکمرانوں کاکبھی بھی دہلی مسئلہ نہیں رہا، پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی بھی دہلی میں مداخلت کو مناسب نہیں سمجھا ،لیکن نریندر مودی تو اسلام اباد سمیت بلوچستان تک ہندو مداخلت کو انڈیا کا حق سمجھتا چلا آ رہا ہے اور وہ اپنے عوامی جلسوں میں بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو مضبوط کرنے کی باتیں کر چکا ہے، یہ تو ہو گئی ہندوستانی میڈیا میں بیٹھے ہوئے بندروں اور مودی حکومت کی گیدڑ بھپکیوں کی بات شاب آتے ہیں۔ امریکہ کے خوشہ چین جاوید غامدی جہلم کے مرزا جہلمی فواد چوہدری اور مروت اینڈ کمپنی کی طرف، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر اکابر علماء نے فلسطین کے جہاد کے حوالے سے جو فتویٰ جاری کیا تھا اس پر انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی اور انہوں نے اکابر علماء کے خلاف ڈھائی ڈھائی گز زبانیں دراز کرنا شروع کر دی تھیں۔
اب تو دہلی پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے، کیا اب ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے کہ جو بھارت کے نریندر مودی اور انڈیا میڈیا کے بندروں کی دھمکیوں کا انہی کی زبان میں جواب دے سکے؟ ان سے کوئی پوچھے اکابر علماء نے فتویٰ جاری کیا تھا یہود کے خلاف اور دھواں چھوڑنا تم نے شروع کر دیا تو کیوں؟ اور اب ابھی تک مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن نے اجتماعی طور پر بھارت کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری نہیں کیا، کیا جاوید غامدی اور جہلم کے زبان دراز پاکستان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے انڈیا کے مقابلے میں میدان میں اترنا پسند فرمائیں گے؟یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پاک فوج کسی بھی بھارتی مہم جوئی کے جواب کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اگر پہلگام واقعے کی اڑ میں دہلی نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو پاکستانی قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ عملی جہاد میں نظرآئے گی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے پاکستانی قوم کے اندر جذبہ جہاد روز اول سے موجود ہے، صرف اس جذبہ جہاد کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے ۔پاکستانی ماں نے ایسے ایسے جوان تیار کر رکھے ہیں کہ جو ایک جوان بھارت کے سو سو ہندو فوجیوں پہ بھاری پڑے گا، نریندر مودی شائد یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی قوم نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں وہ اور اس کے ایجنٹ پاکستان کے خلاف جو چاہے کرتے رہیں گے اور آگے سے انہیں جواب نہیں ملے گا اور شائد وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان نے صرف مرزا جہلمیوں ، فواد چوہدری شہباز گلوں،نجم سیٹھیوں اور جاوید غامدیوں کو ہی پیدا کیا ہے؟ ایسی بات نہیں ہے, وہ یاد رکھے کہ مولانا محمد مسعود ازہر جیسے شیر دل مجاہد بھی پاکستان ہی میں پیدا ہوئے ہیں وہ اب کہاں ہیں؟ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مودی جیسوں کا اصل عملی جواب مولانا محمد مسعود ازہر ہی ہیں اور یہ قوم انڈیا کی بدمعاشی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پاک فوج کو کبھی مایوس نہیں کرے گی،ان شااللہ،قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے باوجود جو لوگ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ناپاک مہم چلا رہے ہیں وہ کبھی بھی پاکستان کے وفادار نہیں ہو سکتے،لندن اور امریکہ میں مفروری کی زندگی گذارنے والے مفروروں کو کوئی بتائے تمہارا جھوٹا پروپیگنڈہ ،جھوٹی خبریں،تجزئیے اور تبصرے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،تم سارے مودی کی صفوں میں بھی شامل ہو جائو تب بھی پاکستانی قوم پاک فوج کے ساتھ مل کر تمہیں شکست فاش سے دوچار کرے گی۔