امریکہ میں5 نئی جگہوں پر آگ بھڑک اٹھی، صورتحال مزید سنگین
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ کیلی فورنیا سے قبل جنوبی کیلی فورنیا میں پانچ نئی جگہوں پر آگ بھڑک اٹھی ۔ ان آتشزدگیوں کو لگونا، سیپولویڈا، گیبل، گل مین اور بارڈر 2 کے نام دیے گئے ہیں۔ یہ آتشزدگیاں جمعرات کے روز لاس اینجلس، سان ڈیاگو، وینٹورا اور ریور سائیڈ کاؤنٹیز میں شروع ہوئیں۔ بدھ کے روز لاس اینجلس میں ہیوز آگ شروع ہوئی تھی جس نے 10 ہزار ایکڑ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اب تک فائرفائٹرز نے اس آگ پر 36 فیصد تک قابو پالیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق کیلی فورنیا میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تباہ کن آتشزدگی کے واقعات نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پیلیسیڈز اور ایٹن آتشزدگیوں نے مجموعی طور پر 37 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین کو جلا کر خاکستر کر دیا اور کم از کم 28 جانیں لے لیں۔
کیلیفورنیا ڈیپارٹمنٹ آف فاریسٹری اینڈ فائر پروٹیکشن (Cal Fire) کے مطابق:
بارڈر 2 آگ سان ڈیاگو میں 800 ایکڑ پر محیط ہے اور وہاں انخلا کے احکامات نافذ ہیں۔
لگونا آگ وینٹورا میں 94 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے جس پر 70 فیصد قابو پایا جا چکا ہے۔
سیپولویڈا آگ لاس اینجلس میں 45 ایکڑ پر محیط ہے اور اس پر 60 فیصد قابو پایا گیا ہے۔ لاس اینجلس فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہاں آگ کے پھیلاؤ کو روک دیا گیا ہے اور انخلا کے احکامات ختم کر دیے گئے ہیں۔
گیبل آگ ریور سائیڈ کاؤنٹی میں 15 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ فائرفائٹرز نے آگ کے پھیلاؤ کو روک دیا ہے۔
گل مین آگ سان ڈیاگو میں دو ایکڑ پر مشتمل ہے، اور اس کا پھیلاؤ بھی روک دیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج لاس اینجلس کا دورہ کریں گے تاکہ تباہ کن آتشزدگی کے نقصانات کا جائزہ لے سکیں۔ نئے صدر نے آگ پر قابو پانے کے ردعمل پر تنقید کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر کیلی فورنیا اپنی پانی کی فراہمی کا نظام بہتر نہ کرے تو وہ وفاقی امداد روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ ریاست پانی کے وسائل ایک چھوٹی مچھلی اسملٹ کو بچانے کے لیے ضائع کر رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لاس اینجلس ایکڑ پر ہے اور
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی ہولناک پامالی اور علاقائی امن و استحکام پر حملہ قرار دیا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ دنیا بھر میں ثالثی اور مذاکراتی عمل کی ساکھ پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی حمایت یافتہ ثالثی میں شامل فریقین کو نشانہ بنانے سے قطر کے بطور ثالث اور فروغ امن کے لیے کام کرنے والے کردار کی حیثیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ Tweet URLانہوں نے کہا کہ ایسے شہریوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے جو براہِ راست جنگی کارروائیوں میں شامل نہ ہوں۔
(جاری ہے)
جب ممالک جنگ کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے تمام شہریوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ حماس کا وفد قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے موجود تھا، جو کہ امن کی جانب نہایت اہم قدم ہے۔ہائی کمشنر نے کہا کہ 'ہمارے دل غزہ کے شہریوں، اسرائیلی یرغمالیوں، ان کے پیاروں اور ان افراد کے لیے رنجیدہ ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں ناجائز قید کاٹ رہے ہیں۔
ماورائے قانون جنگ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں شہریوں کے لیے بے پایاں مظالم اور تکالیف سے بھرپور مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رکن ممالک کو امن کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔'عالمی برادری سے اپیلوولکر ترک نے کہا کہ دوحہ پر اسرائیلی حملہ اس وقت پیش آیا ہے جب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی امید ماند پڑ رہی ہے جبکہ یہی حل پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔
شمالی غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو بیدخل کیا جا رہا ہے جبکہ مشرقی یروشلم میں آبادی کاری منصوبہ جاری ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے حکومتی وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے ہولناک دہشت گرد حملوں اور ان کے بعد پھیلنے والے تشدد کو تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔
اب اس قتل و غارت کو رک جانا چاہیے۔رکن ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کریں اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کریں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ہتھیار شامل ہیں جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستوں کو جنگ بندی، تمام یرغمالیوں اور ناجائز حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر ترسیل کے لیے بھرپور دباؤ ڈالنا چاہیے۔
ریاستی دہشت گردیکونسل سے خطاب کرتے ہوئے قطر کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی المسند نے کہا کہ اسرائیلی حملہ نہ صرف اُن کے ملک کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی تھا اور یہ عمل ریاستی دہشت گردی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد قطری ثالثی نے قابلِ قدر نتائج دیے جن میں 135 یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی شامل ہے جس سے اسرائیلی خاندانوں میں اعتماد اور امید کی بحالی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کو نشانہ بنانا نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے مزید جانیں بچانے اور امن کے حصول کے امکانات کو بھی نقصان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حملہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وسیع مہم کا حصہ ہے۔
یہ ایک ایسی خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو خطے و دنیا کو بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی کی طرف دھکیل سکتی ہے اور جو کچھ دوحہ میں ہوا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔