عالمی عدالت نے افغانستان پر 20 سالہ قبضے پر آنکھیں بند رکھیں،طالبان
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
کابل(مانیٹرنگ ڈیسک)افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکوٹر کی جانب سے رہنماو¿ں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا مطالبہ ’سیاسی‘ ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادار اے ایف پی کی خبر کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے یہ بیان آئی سی سی کے چیف پراسیکوٹر کا بیان سامنے آنے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس
میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، پر طالبان کے سینئر رہنماو¿ں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی استدعا کر رہے ہیں۔افغان وزارت خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ (آئی سی سی) کے بہت سے دوسرے فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی منصفانہ قانونی بنیادوں سے محروم ہے، یہ دوہرے معیار کا معاملہ ہے۔بیان میں کہا گیا کہ یہ افسوسناک ہے کہ اس ادارے نے افغانستان پر 20 سالہ قبضے کے دوران غیر ملکی افواج اور ان کے ملک میں موجود اتحادیوں کی جانب سے کیے گئے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اس میں مزید کہا گیا کہ عدالت کو پوری دنیا پر انسانی حقوق کی ایک خاص تشریح مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور عالمی عدالت کو باقی دنیا کے لوگوں کی مذہبی اور قومی اقدار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ طالبان 2021 میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں واپس ا?ئے، وہ عوام پر اسلامی قوانین کو سخت تشریح کے ساتھ نافذ کر رہے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری جو گوانتاناموبے جیل میں قیدی رہے، انہوں نے کہا کہ آئی سی سی ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتی۔انہوں نے مشرقی شہر خوست میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ منصفانہ اور سچی عدالتیں ہوتیں تو انہیں امریکا کو کٹہرے میں لانا چاہیے تھا کیونکہ یہ امریکا ہی ہے جس نے جنگیں شروع کیں، دنیا کے تنازعات امریکا کے ہی پیدا کردہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف بھی غزہ میں فوجی کارروائی پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں اسرائیل کے وزیر اعظم کو عدالتی کٹہرے میں لانا چاہیے، کیونکہ ( ان کی حکومت) نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا، لیکن وہ آزاد پھر رہے ہیں کیونکہ عالمی طاقت ان کے پیچھے کھڑی ہے۔
طالبان
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی جانب سے انہوں نے کے خلاف رہے ہیں نے کہا
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔