ٹیکس بڑھانے کے باوجود قرضے لینا پڑرہے ہیں،میاں زاہد حسین
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین ، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اورٹیکس میں بے پناہ اضافے کے باوجود قرضے لینا پڑرہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری اخراجات بڑھنے کی رفتارضرورت سے بہت زیادہ ہے۔ سرکاری اخراجات کوکنٹرول نہ کیا گیا توملک پرعائد قرضوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ڈیٹ سروسنگ بھی بڑھتی رہے گی جس کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اور ضرورت سے زیادہ ٹیکسوں سے معیشت کونقصان اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آرمیں اصلاحات پرکئی دہائیوں سے اربوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں مگر اسکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈی اورٹیکس مراعات کے خاتمہ پرعمل درآمد کی رفتاربھی سست روی کا شکارہے۔ سابقہ فاٹا اورپاٹا میں مقامی ضرورت سے کئی سوفیصد زیادہ صنعتی پیداوارہورہی ہے جو ٹیرف ایریا میں اسمگل کردی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت کواربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ ملک کے دیگرعلاقوں میں ٹیکس ادا کرنے والی صنعتیں بند ہوگئی ہیں جس سے بہت سے لوگ بے روزگارہوگئے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے پاکستان شدید مشکلات کا شکاررہا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے مصنوعی طورپرشرح نموبڑھانے کے لئے معیشت کوبرباد کردیا اورعوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا۔ 2023ء کے وسط میں مہنگائی 38 فیصد کی بلند ترین سطح پرپہنچ گئی تھی جس سے عام آدمی کی قوت خرید ختم اوراس کیلئے دووقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا۔ مارچ 2024ء میں وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی اصلاحات پرعمل درآمد شروع کیا جس کی وجہ سے دسمبرتک مہنگائی 4.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میاں زاہد حسین
پڑھیں:
شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد:شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد کے قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی صارت میں ہوا، جس میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں نیشنل بینک کی جانب سے 190 ارب روپے کی ریکوریاں نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض پر بحث کی گئی۔
سیکرٹری خزانہ نے بریفنگ میں بتایا کہ ریکوری کی کوششیں کی جارہی ہیں،28.7 ارب روپے ریکور ہوئے ہیں۔
جنید اکبر نے استفسار کیا کہ قرضہ لیتے ہیں تو کوئی چیز گروی نہیں رکھتے؟ ، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ بالکل رکھتے ہیں۔ 10 ہزار 400 کیس ریکوری کے پینڈنگ ہیں۔ جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی میں بریفنگ کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نیشنل بینک انتظامیہ نے شوگر ملز کو 15.2 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جو شوگر ملز واپس کرنے میں ناکام رہیں، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ 25 قرضے ہیں۔ ایک قرضہ مکمل ایڈجسٹ ہو چکا ہے اور 3 ری اسٹرکچر ہو گئے ہیں۔ 17 قرضے ریکوری میں ہیں۔
کمیٹی نے ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ آئندہ کے لیے مؤخر کردیا۔
علاوہ ازیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈاریکٹرز کا عشائیہ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کرنے کا انکشاف ہوا۔ ندیم عباس نے کہا کہ بورڈ کے پاس اپنی مراعات بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس کیس میں ایسے کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی منظوری پہلے وزارت خزانہ سے کی جائے۔
نوید قمر نے کہا کہ ہم نے بینک کو وزارت خزانہ سے نکالا ہے، واپس نہ دھکیلا جائے۔ جنید اکبر نے کہا کہ آئندہ بورڈ میں وزارت خزانہ کے نمائندے کی شرکت یقینی بنائی جائے۔