چین کا ترقی کے لئے اپنے جائز حق کا دفاع کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
بیجنگ : چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ ہفتہ کے روز
وانگ ای نے کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ اور صدر ٹرمپ کے درمیان گزشتہ جمعے کو فون پر ایک اہم رابطہ ہوا ۔ دونوں فریقوں کو سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے پر عمل درآمد کرتے ہوئے، چین امریکہ تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور نئے دور میں چین اور امریکہ کے ساتھ چلنے کا درست راستہ تلاش کرنا چاہیئے۔ وانگ ای نے کہا کہ چین کا مقصد ترقی میں کسی کو پیچھے چھوڑنا یا اس کی جگہ لینا نہیں لیکن چین ترقی کے اپنے جائز حق کا دفاع ضرور کرے گا ۔ وانگ ای نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے امور میں احتیاط سے کام لے ۔چینی وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تائیوان ہمیشہ سے چین کا حصہ رہا ہے اور چین تائیوان کو کبھی بھی خود سے الگ نہیں ہونے دے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ کے تین مشترکہ اعلامیوں میں امریکہ نے ایک چین کی پالیسی پر عمل کرنے کا پختہ عزم کیا تھا لہذا اسے ان اعلامیوں کی پاسداری کرنا ہوگی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات اکیسویں صدی میں سب سے اہم دو طرفہ تعلقات ہیں اور یہ دنیا کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ امریکہ چین کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنے، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنے، دوطرفہ تعلقات کو پختہ کرنے اور انہیں دانشمندانہ انداز میں استوار کرنے ، عالمی چیلنجوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے اور عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرتا اور امید کرتا ہے کہ تائیوان کا مسئلہ آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کے لئے قابل قبول طریقے سے پرامن انداز میں حل ہو گا۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ بڑے ممالک کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں، عالمی امن کا تحفظ کرنا چاہیے اور مشترکہ ترقی کے حصول میں تمام ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ امریکی وزیر خارجہ درست فیصلے کریں گے اور چین اور امریکہ کے عوام کے مستقبل اور عالمی امن و استحکام کے لئے تعمیری کردار ادا کریں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ معطل: پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع کریں گے، وزیر توانائی
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع بھی کریں گے۔
وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے پر بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرف سے جلد بازی اور اسکے نتائج کی پرواہ کے بغیر معطل کرنا آبی جنگ کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت یہ اقدام اور غیر قانونی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے، اور ہم قانونی، سیاسی اور عالمی سطح پر پوری طاقت سے اس کا دفاع کریں گے۔"
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدے کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دریاؤں کا پانی منصفانہ تقسیم ہونا تھا۔ اس معاہدے میں ورلڈ بینک بطور ضامن ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں راوی ستلج اور بیاس پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا جس کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کو حق دیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کو دریاؤں کے پانی سے بجلی بنانے کا حق تو حاصل ہے تاہم پانی ذخیرہ کرنے یا بہاؤ کو کم کرنے کا حق حاصل نہیں۔
بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی
دوسری جانب ذرائع کے مطابق بھارت کا یہ مذموم فیصلہ 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔
سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ جس میں عالمی بینک بھی بطور ثالت شامل ہے۔
معاہدے کی روح سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا جبکہ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔