پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے 6 ماہ میں کتنا ٹیکس ادا کیا؟ اہم انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ برآمد کنندگان کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس دینے والا طبقہ بن گیا، رواں مالی سال کے چھ ماہ میں تین گنا زائدانکم ٹیکس ادا کیا۔
تفصیلات کے مطابق تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات سامنے آگئیں۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ برآمدکنندگان سے زیادہ ٹیکس دینے لگا، طبقے نے برآمد کنندگان کے مقابلے میں رواں مالی سال کے چھ ماہ میں 3 گنا زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔
ذرائع نے کہا کہ رواں مالی سال جولائی سے دسمبر تک تنخواہ دار طبقے نے 243 ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے جو گزشتہ مالی سال میں صرف ایک سو ستاون ارب روپے اکٹھا ہوا تھا۔
ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے 5 سے 10 لاکھ روپے کمانے والوں پرانکم ٹیکس میں اضافہ کیا تھا اور حکومت تنخواہ دار طبقے سے رواں مالی سال میں پانچ سوارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف رکھا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے برآمد کنندگان کے انکم ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کردو فیصد کر دیا گیا تھا تاہم برآمدکنندگان کے انکم ٹیکس کی مد میں صرف 80 ارب روپےکا ٹیکس وصول ہوا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران صرف 40 ارب روپے تھا۔
مزیدپڑھیں:پاکستان سے برطانیہ جانے والے مسافروں کے لیے اہم خبر آگئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے رواں مالی سال ارب روپے
پڑھیں:
5131 غلط افراد کو ای او بی آئی کی مد میں 2 ارب 79 کروڑ روپے دیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )5131 غلط افراد کو اولڈ ایج بینیفٹ پنشن کی مد میں 2 ارب 79 کروڑ روپے دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت جاری ہے جس میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی نے 2 ارب 79 کروڑ روپے کی فیک پنشنرز کو ادائیگی کی، حکام ای او بی آئی نے کہا کہ ای او بی آئی کے فنڈ کی مالیت 600 ارب روپے ہے، ملک میں ایک کروڑ کاروبار ہیں، 10 ملازمین والے ادارے کو پنشن فنڈ میں شامل کیا جاتا ہے، آڈٹ نے الزم لگایا ہے کہ ملازمین کی عمر میں تبدیلی کر کے 5 ہزار افراد کو پنشن دی ہے۔
حکام نے کہا کہ ہمارا محکمہ 1976 کا قائم ہے اور نادرا سے پہلے کا ہے، شناختی کارڈ کی تاریخ پیدائش کے علاوہ ہم دیگر ذرائع سے بھی عمر چیک کرتے ہیں۔جنید اکبر نے کہا کہ یہ بتائیں کیا میٹرک کی سند اور شناختی کارڈ پر عمر الگ الگ ہو سکتی ہے، سیکرٹری اوورسیز نے کہا کہ اب شناختی کارڈ پر ہی پنشن کیس کو سیٹل کیا جائے گا، ای او بی آئی کی پنشن یکم مئی سے بڑھائی جائے گی۔آڈٹ حکام نے 8 لاکھ پنشنرز میں سے 5 ہزار پنشنرز کے کوائف کو غلط کہا ہے، آڈٹ حکام نے پنشن کے ڈیٹا پر ڈیٹ آف برتھ کا چیک لگا کر یہ ڈیٹا حاصل کر لیا، یہ پنشنرز 1950 اور 1960 کی تاریخ پیدائش والے ہیں۔
سیکرٹری اوورسیز نے کہا کہ یہ پنشنرز شناختی کارڈ اور نادرا سے پہلے دور کے ہیں، آڈٹ حکام نے بتایا کہ پنشن شناختی کارڈ پر درج تاریخ پیدائش سے مختلف افراد کو ادا کی گئی، 60 سال سے کم عمر مردوں اور 55 سال سے کم عمر خواتین کو پنشن جاری کی گئی۔سیکرٹری وزارت سمندر پار پاکستانی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے جو نظر آرہا ہے، چیئرمین ای او بی سی نے کہا کہ پنشن میٹرک کی سند پر دی گئی، ہم میٹرک کی سند دیکھ کرپنشن دیتے ہیں۔
جنید اکبر خان نے کہا کہ معیار ایک رکھیں کہ پنشن شناختی کارڈ پر جاری کریں گے یا میٹرک کی سند پر۔
معین عامر نے کہا کہ ای او بی آئی کو چاہئے کہ کم از کم اجرت کے برابر پنشن جاری کی جائے، آڈٹ حکام نے کہا کہ اکتیس سال کے افراد کو بھی پنشن ملی ہے، چیئرمین ای او بی آئی نے کہا کہ اب ہم آئندہ سے نادرا کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے شناختی کارڈ پر پنشن جاری کریں گے۔
سیکرٹری وزارت سمندر پاکستانی نے کہا کہ ہمیں ایک مہینے کا وقت دے دیں کہ سب کچھ ٹھیک کردیں،
کمیٹی نے وزارت کو ایک ماہ میں سارے معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔آڈٹ حکام نے کہا کہ ای او بی آئی نے 2 ہزار 864 اداروں سے 2 ارب 47 کروڑ روپے کی ریکوری نہیں کی ہے، حکام نے کہا کہ ادارے مکمل ملازمین کی تعداد کو رجسٹر نہیں کرواتے ہیں اور اپنی واجب الادا رقم ادا نہیں کرتے ہیں، ہم نے ایک ارب 53 کروڑ روپے کی ریکوری کر لی ہے۔
حکام نے کہا کہ تاہم ابھی بھی ایک ارب روپے کی وصولی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، کچھ ریکوری کیس عدالت میں ہونے کے باعث وصول نہیں کی جا سکتی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس ریکوری کو ایک ماہ میں مکمل کریں، ریاض فتیانہ نے کہا کہ بڑے صنعتی ادارے مکمل ملازمین کو رجسٹر نہیں کرواتے، جنید اکبر کا کہنا تھا کہ اس خلاف ورزی کو کون چیک کرتا ہے۔
معین عامر پیرزادہ نے کہا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو ای او بی آئی میں رجسٹر نہیں کیا جاتا، بلال احمد خان نے کہا کہ ای او بی آئی میں رجسٹریشن میں صنعتی شعبے کو ٹیکس مراعات دی جائیں، ریاض فتیانہ نے کہا کہ
ٹیکسٹائل میں کام کرنے والے لوگوں کو حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث ٹی بی ہو رہی ہے۔
حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی مختلف ڈیٹا بیس سے عملے کی تعداد کا تعین کرتا ہے، سیکرٹری اوورسیز کا کہنا تھا کہ ملک میں 7 کروڑ ملازمین ہیں ہمارے پاس ایک کروڑ ملازمین کا ڈیٹا ہے، ای او بی آئی میں رجسٹریشن بہتر بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ زراعت کے شعبے کی 38 فیصد لیبر فورس کو رجسٹر نہیں کیا جا سکتا، ایکسپورٹ پروسسنگ زونز میں قائم فیکٹریوں کے عملے کو بھی ای او بی آئی میں رجسٹر نہیں کیا جاتا، گزشتہ سال 66 ارب روپے اور اس سال اب تک 72 ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ ای او بی آئی کے نام پر میرے ذہن میں سکینڈل آ جاتا ہے، ادارے کا امیج بہتر بنانے کیلئے کام کیا جائے، سیکرٹری اوورسیز نے کہا کہ اس سال وزارت اوورسیز کی کوششوں سے زیادہ لوگ ملازمت کیلئے بیرون ملک گئے، ایک کروڑ پاکستانی ملک سے باہر ہیں، سالانہ 5 لاکھ افراد ملازمت کیلئے ملک سے باہر جاتے ہیں۔
اجلاس کے دوران عمر ایوب نے کہا کہ ثنا اللہ مستی خیل کے گھر سے میٹر اتارنے کا معاملہ صرف ان کا نہیں یہ سب کا معاملہ ہے۔جنید اکبر نے کہا کہ اس معاملے پر ہم سب ایک پیج پر ہیں، ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی ہے جو بھی وہ فیصلے کرے گی اسی پر عمل ہوگا، مجھے ایک خط آیا ہے وہ کمیٹی سے شیئر کروں گا۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ تو پھر ناں کرنے والی بات ہوئی،جنید اکبر نے کہا کہ نہیں اہم احتجاجاً کمیٹی بلا رہے ہیں، جو بھی متفقہ فیصلہ ہوگا اس پر عمل ہوگا۔
ملتان سلطانز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے میچ کا ٹاس ہو گیا
مزید :