UrduPoint:
2025-09-18@14:11:59 GMT

علی اکبر ناطق: ایک معمار چوٹی کا ادیب کیسے بنا؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

علی اکبر ناطق: ایک معمار چوٹی کا ادیب کیسے بنا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) ناطق محض حرف و حکایت کی دنیا میں نہیں فن تعمیر میں بھی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی دلفریب عمارتیں جن میں اے سی کی ضرورت ہے نہ ہیٹر کی۔ بظاہر معمولی پس منظر رکھنے والا ایک فنکار پاکستان کی زرخیز مٹی اور بے پناہ ٹیلنٹ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔

مطالعے اور مشاہدے کی عادت جو طاقت ثابت ہوئی

اگر آپ ناطق کی خود نوشت ' آباد ہوئے، برباد ہوئے‘ پڑھیں تو اس میں پدی، اچھو، جیدا اور ماکھی جیسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، جن کے نام سے ان کے سماجی پس منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

انہیں میں سے ایک علی اکبر میں ایسا کیا تھا کہ وہ آج چوٹی کے ادیبوں کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہے؟

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے علی اکبر ناطق کہتے ہیں، ”میرے گھر اور سکول کا فاصلہ بمشکل سو ڈیڑھ سو قدم تھا۔

(جاری ہے)

سکول سے چھٹی کے بعد شاید ہی کبھی میں سیدھے راستے سے واپس آیا ہوں۔ ہمیشہ ادھر ادھر نکل جاتا اور واپسی پر میرا دل نئی حیرتوں سے بھرا ہوتا۔

ادیب یہی کام کرتا ہے، وہ بنے بنائے اور روٹین کے راستوں پر نہیں چلتا۔"

ناطق کی خود نوشت سے پتہ چلتا ہے کہ اوکاڑہ کے معمولی چک بتیس ایل۔ ٹو کی بے چین روح اسلام آباد میں آنے سے پہلے مزدوری کے لیے سعودی عرب گئی۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ناطق کہتے ہیں، ”ایک خیال تھا کہ جو اینٹ روڑہ یہاں لگانا ہے وہ سعودیہ میں جا کر لگایا جائے تو بہتر آمدن ہو گی۔

وہاں دیکھا کہ مزدور کی حالت گدھے سے بھی بدتر ہے۔ ایک رات خیال آیا اگر دل خوش نہیں تو پوری دنیا کی دولت بھی بیکار ہے، کہاں میں چند سو ریال کے لیے خود کو گروی رکھوا چکا۔ یہ کوئی زندگی نہیں۔"

سعودیہ سے واپسی کے بعد کچھ عرصے اوکاڑہ، لاہور اور اسلام آباد میں مزدوری کرتے رہے۔ بھینسوں کے باڑے میں بھی کام کیا۔ یومیہ اجرت کے دن ہوں یا نری بھوک اور افلاس، کہتے ہیں ”یاد نہیں کبھی مطالعے کے بغیر سویا ہوں۔

زندگی کے دھکے اس لیے برے نہیں لگتے کہ تجربے کا بے پناہ خزانہ ہاتھ لگا۔ ورنہ میں بھی آج اپنا لکھنے کے بجائے فیشن کے طور پر مغربی تھیوریوں کی جگالی کر رہا ہوتا۔" اکادمی ادبیات میں 'حادثاتی انٹری‘ جس نے زندگی بدل کر رکھ دی

یہ 2005 کی بات ہے جب اسلام آباد میں ناطق بھینسوں کے باڑے سے اکادمی ادبیات جا پہنچے۔

وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ نہ تھا، بس ویسے ہی تجسس تھا کہ شاعر ادیب کیسے ہوتے ہیں۔ آوارہ گردی کے دوران بورڈ نظر آیا تو اندر چلا گیا۔"

وہ کہتے ہیں، ”جب حلقہ اربابِ ذوق میں ادیبوں کو دیکھا اور ان کی تخلیقات سنیں تو مجھے لگا ان سے بہتر تو میں لکھ سکتا ہوں۔ یوں لکھنے کا سفر شروع ہوا۔

”کسوٹی پروگرام دیکھ رکھا تھا اس لیے افتخار عارف جانا پہچانا چہرہ تھے۔

ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ ان کا احسان ہے کہ مجھے دیہاڑیوں سے نکال کر اکادمی ادبیات کی بک شاپ میں لائے۔ یہ ساتویں گریڈ کی نوکری تھی۔ کتابیں کون خریدتا ہے؟ سو فرصت ہی فرصت تھی، دن بھر کتابیں پڑھتا، رات کو لکھنے کی کوشش کرتا۔" پانچ افسانے، دس نظمیں: ایک ہمہ گیر ادیب کا تاثر

اردو کی ادبی دنیا کے لیے اجمل کمال کا رسالہ 'آج‘ اور آصف فرخی کا 'دنیا زاد‘ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

کراچی سے شائع ہونے والے یہ دونوں رسالے اکادمی ادبیات کی بک شاپ پر باقاعدہ سے آتے۔ 2009 میں ناطق ایک طرح سے شہر اقتدار میں ان کے ڈسٹری بیوٹر تھے۔

ناطق کہتے ہیں، ”آج میں صرف تراجم چھپ رہے تھے، میں نے ایک دن اجمل کمال کو اپنے دو افسانے بھیجے اور ساتھ خط لکھا کہ پسند آئیں تو شائع کر دیں ورنہ پھینک دیجیے گا۔ انہوں نے کہا کچھ اور افسانے ہیں تو وہ بھی بھیج دو۔

میں نے مزید تین کہانیاں بھیج دیں۔ اس طرح میرے پانچ افسانوں پر مشتمل گوشہ خاص شائع ہوا۔ آج کے معیار کو دیکھتے ہوئے یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔"

چند ہفتوں کے فرق سے 'دنیا زاد‘ میں ناطق کی دس نظمیں ایک ساتھ شائع ہو گئیں۔ انڈیا سے شمس الرحمن فاروقی جیسے بڑے نقاد نے تعریف کرتے ہوئے پنجاب کے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کی۔

ناطق نے اکادمی کی بک شاپ کو چھوڑ کر اسلام آباد کے مرکز آئی ایٹ میں 'مرزا غالب کتاب گھر‘ کے نام سے رونق لگا لی۔

اس دوران ناطق مسلسل لکھتے اور شائع ہوتے رہے۔ ادبی دنیا ناطق کی رفتار، تنوع اور اثرانگیزی پر حیران و پریشان تھی۔

محمد حنیف نے ناطق کے ایک افسانے کا ترجمہ کیا جسے معروف ادبی میگزین گرانٹا نے 2012 میں شائع کیا۔ناطق کہتے ہیں، ”اس کے بعد مجھے پینگوئن بکس کی طرف سے کال آئی۔ وہ میری کتابیں شائع کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے افسانوں کی کتاب 'قائم دین‘ اور ناول 'نو لکھی کوٹھی‘ شائع کیا۔

"

اب تک علی اکبر ناطق کی 16 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دو افسانوی مجموعے، تین ناول، سات شعری مجموعے، تین تحقیقی و تنقیدی کتابیں اور ایک خود نوشت شامل ہے۔

فکشن، نان فکشن، شاعری اور تنقید جیسی مختلف اصناف میں ناطق نے اپنا آپ منوایا جو ان کی ہمہ گیر شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔

عمارتیں جنہیں گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر کی ضرورت نہ ہو گی

علی اکبر ناطق قلم کے مزدور ہوئے تو مٹی روڑے سے رشتہ نہ توڑا۔

وہ فن تعمیر میں بھی ایک الگ پہچان بنا رہے ہیں۔ اگرچہ راج مستری ان کے خون میں شامل ہے مگر کتابی دنیا سے وہ دوبارہ مٹی گارے میں کیسے اترے۔؟

اس حوالے سے وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”مرزا غالب کتاب گھر میں ایک معمول کی محفل جمی تھی۔ ایک دوست نے کہا وہ گھر بنوا رہا ہے لیکن سارے مستری کنکریٹ کا قید خانہ کھڑا کر دیتے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔

میں نے اسے آفر کی اور اس کا گھر بنا ڈالا۔

”بعد میں امریکہ گیا تو ادبی محفلوں اور پرستاروں کے سبب مالی آسودگی حاصل ہوئی، واپس آیا تو کورونا کی بلا پنجے گاڑھ چکی تھی۔ بیٹھے بیٹھے گھر تعمیر کرنے کا خیال آیا جس کی انفرادیت سوشل میڈیا پر کیش ہو گئی۔"

ناطق کا خیال ہے دنیا کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار سرمایہ دار کا ہے جو ہر چیز کی قدر و قیمت مالی نفع نقصان سے ماپتا ہے، ادب اور فن تعمیر بھی اس کے دست ہوس سے نہ بچ سکے۔

ناطق کے بقول، ”سیمنٹ کے گھر ہمارے ماحول سے ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتے، سرمایہ کار نے ہمیں اس پہ لگا دیا۔ پہلے سیمنٹ اور بجری فروخت ہوتی ہے، پھر اے سی اور ہیٹر۔ ہمارا قدیم فن تعمیر جمالیاتی اعتبار سے زیادہ خوبصورت اور ماحول کے موافق تھا۔ میں نے اسی قدیم فن تعمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔"

ان کے بقول، ”فن تعمیر میں بھی ندرت خیال کام آئی۔

فنکار ہر رنگ میں فنکار ہوتا ہے۔"

اسلام آباد میں جامعہ ولایہ کی شاندار عمارت تعمیر کرنے کے بعد ناطق کا اگلا پڑاؤ سکردو ہے جہاں وہ قدیم طرز کی چار عمارتیں تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔

سولہ کتابیں لکھنے کے بعد ناطق کا تخلیقی مانجھا ڈھیلا نہیں پڑا۔ وہ کہتے ہیں،”پانچ کتابیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ مجھے کائنات کی کوکھ سے ابھی بہت کچھ برآمد کرنا اور لفظوں میں قید کرنا ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد میں اکادمی ادبیات علی اکبر ناطق ناطق کہتے ہیں شائع ہو میں بھی ناطق کی کے بعد

پڑھیں:

پارک ویو سٹی کے حفاظتی بند کی تعمیر کا افتتاح کر دیا

لاہور:

پارک ویو سٹی نے اپنے حفاظتی بند کی تعمیر کا باضابطہ آغاز ایک شاندار سنگِ بنیاد تقریب کے ذریعے کر دیا، جو مستقبل میں ممکنہ سیلابی خطرات کے مقابلے کے لیے رہائشیوں کی طویل مدتی حفاظت اور بحالی کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے۔

اس موقع پر چیئرمین وژن گروپ عبدالعلیم خان، سی ای او پارک ویو سٹی جنید امین اور ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ نعیم وڑائچ نے خصوصی شرکت کرتے ہوئے منصوبے کا افتتاح کیا۔ ریئلٹرز، رہائشیوں اور کمیونٹی نمائندگان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، جس سے اس انقلابی منصوبے پر بھرپور اعتماد اور حمایت کا اظہار ہوا۔

تقریب کے دوران چیئرمین عبدالعلیم خان نے دریائے راوی کے حالیہ سیلاب سے متاثرہ رہائشیوں کے لیے ایک ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہر متاثرہ رہائشی کو معاوضہ براہِ راست ان کے دروازے پر پہنچایا جائے گا۔ اس کے علاوہ متاثرہ پانچ بلاکس میں ترقیاتی چارجز کی دو ماہ کی معافی بھی دی گئی تاکہ فوری مالی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

یہ حفاظتی بند 30 فٹ بلند ہوگا جو سوسائٹی کے تمام بلاکس کو کور کرے گا۔ اپنے بنیادی حفاظتی کردار کے ساتھ ساتھ اسے خوبصورت بنا کر واک اور جاگنگ ٹریک میں بھی ڈھالا جائے گا، جو صرف پارک ویو سٹی کے ممبران کے لیے ہوگا، یوں یہ منصوبہ حفاظت اور معیاری طرزِ زندگی دونوں کو یکجا کرے گا۔

چیئرمین عبدالعلیم خان نے پارک ویو سٹی کی انتظامیہ کی انتھک کاوشوں کو سراہا جنہوں نے مشکل وقت میں رہائشیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں سہارا دیا اور سوسائٹی کو بحالی و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

یہ منصوبہ حالیہ سیلابی چیلنجز کے تناظر میں شروع کیا گیا ہے، جو پارک ویو سٹی کے اس عزم کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اپنے رہائشیوں کو محفوظ، جدید اور پائیدار رہائشی سہولیات فراہم کرے گا۔ منصوبہ 100 دن کے اندر مکمل کیا جائے گا تاکہ بروقت ریلیف اور طویل مدتی تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین عبدالعلیم خان نے کہا کہ یہ حفاظتی بند محض ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ پارک ویو سٹی کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جو جدت اور ذمہ داری کو یکجا کرتا ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ اپنے رہائشیوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک ترقی یافتہ اور خوشحال کمیونٹی تشکیل دیں گے۔

سنگِ بنیاد کی یہ تقریب دراصل ایک نئے دور کا آغاز ہے، جسے پارک ویو سٹی نے “تحفظ، جدت اور ترقی کے نئے باب” سے تعبیر کیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف جدید سہولیات کی فراہمی بلکہ مضبوط اور مستحکم انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے لاہور کی دیگر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے تاکہ وہ ماحولیاتی تحفظ، رہائشی بہبود اور فعال شہری منصوبہ بندی کو ترجیح دیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو فنِ تعمیر کے عالمی میدان میں ایک اور اہم اعزاز حاصل
  • سوشل میڈیا اسٹار عمر شاہ کے آخری لمحات کیسے تھے؟ چچا کا ویڈیو بیان وائرل
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • گلشن معمار میں فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید، 4 نامعلوم حملہ آور فرار
  • کراچی: گلشنِ معمار میں فائرنگ، پنکچر لگوانے والا پولیس اہلکار جاں بحق
  • کراچی، گلشن معمار میں فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
  • پارک ویو سٹی کے حفاظتی بند کی تعمیر کا افتتاح کر دیا
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • 82 سالہ امیتابھ بچن 75 فیصد ناکارہ جگر کے باوجود موت کو کیسے شکست دے رہے ہیں؟
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!