UrduPoint:
2025-06-10@06:23:04 GMT

علی اکبر ناطق: ایک معمار چوٹی کا ادیب کیسے بنا؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

علی اکبر ناطق: ایک معمار چوٹی کا ادیب کیسے بنا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) ناطق محض حرف و حکایت کی دنیا میں نہیں فن تعمیر میں بھی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی دلفریب عمارتیں جن میں اے سی کی ضرورت ہے نہ ہیٹر کی۔ بظاہر معمولی پس منظر رکھنے والا ایک فنکار پاکستان کی زرخیز مٹی اور بے پناہ ٹیلنٹ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔

مطالعے اور مشاہدے کی عادت جو طاقت ثابت ہوئی

اگر آپ ناطق کی خود نوشت ' آباد ہوئے، برباد ہوئے‘ پڑھیں تو اس میں پدی، اچھو، جیدا اور ماکھی جیسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، جن کے نام سے ان کے سماجی پس منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

انہیں میں سے ایک علی اکبر میں ایسا کیا تھا کہ وہ آج چوٹی کے ادیبوں کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہے؟

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے علی اکبر ناطق کہتے ہیں، ”میرے گھر اور سکول کا فاصلہ بمشکل سو ڈیڑھ سو قدم تھا۔

(جاری ہے)

سکول سے چھٹی کے بعد شاید ہی کبھی میں سیدھے راستے سے واپس آیا ہوں۔ ہمیشہ ادھر ادھر نکل جاتا اور واپسی پر میرا دل نئی حیرتوں سے بھرا ہوتا۔

ادیب یہی کام کرتا ہے، وہ بنے بنائے اور روٹین کے راستوں پر نہیں چلتا۔"

ناطق کی خود نوشت سے پتہ چلتا ہے کہ اوکاڑہ کے معمولی چک بتیس ایل۔ ٹو کی بے چین روح اسلام آباد میں آنے سے پہلے مزدوری کے لیے سعودی عرب گئی۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ناطق کہتے ہیں، ”ایک خیال تھا کہ جو اینٹ روڑہ یہاں لگانا ہے وہ سعودیہ میں جا کر لگایا جائے تو بہتر آمدن ہو گی۔

وہاں دیکھا کہ مزدور کی حالت گدھے سے بھی بدتر ہے۔ ایک رات خیال آیا اگر دل خوش نہیں تو پوری دنیا کی دولت بھی بیکار ہے، کہاں میں چند سو ریال کے لیے خود کو گروی رکھوا چکا۔ یہ کوئی زندگی نہیں۔"

سعودیہ سے واپسی کے بعد کچھ عرصے اوکاڑہ، لاہور اور اسلام آباد میں مزدوری کرتے رہے۔ بھینسوں کے باڑے میں بھی کام کیا۔ یومیہ اجرت کے دن ہوں یا نری بھوک اور افلاس، کہتے ہیں ”یاد نہیں کبھی مطالعے کے بغیر سویا ہوں۔

زندگی کے دھکے اس لیے برے نہیں لگتے کہ تجربے کا بے پناہ خزانہ ہاتھ لگا۔ ورنہ میں بھی آج اپنا لکھنے کے بجائے فیشن کے طور پر مغربی تھیوریوں کی جگالی کر رہا ہوتا۔" اکادمی ادبیات میں 'حادثاتی انٹری‘ جس نے زندگی بدل کر رکھ دی

یہ 2005 کی بات ہے جب اسلام آباد میں ناطق بھینسوں کے باڑے سے اکادمی ادبیات جا پہنچے۔

وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ نہ تھا، بس ویسے ہی تجسس تھا کہ شاعر ادیب کیسے ہوتے ہیں۔ آوارہ گردی کے دوران بورڈ نظر آیا تو اندر چلا گیا۔"

وہ کہتے ہیں، ”جب حلقہ اربابِ ذوق میں ادیبوں کو دیکھا اور ان کی تخلیقات سنیں تو مجھے لگا ان سے بہتر تو میں لکھ سکتا ہوں۔ یوں لکھنے کا سفر شروع ہوا۔

”کسوٹی پروگرام دیکھ رکھا تھا اس لیے افتخار عارف جانا پہچانا چہرہ تھے۔

ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ ان کا احسان ہے کہ مجھے دیہاڑیوں سے نکال کر اکادمی ادبیات کی بک شاپ میں لائے۔ یہ ساتویں گریڈ کی نوکری تھی۔ کتابیں کون خریدتا ہے؟ سو فرصت ہی فرصت تھی، دن بھر کتابیں پڑھتا، رات کو لکھنے کی کوشش کرتا۔" پانچ افسانے، دس نظمیں: ایک ہمہ گیر ادیب کا تاثر

اردو کی ادبی دنیا کے لیے اجمل کمال کا رسالہ 'آج‘ اور آصف فرخی کا 'دنیا زاد‘ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

کراچی سے شائع ہونے والے یہ دونوں رسالے اکادمی ادبیات کی بک شاپ پر باقاعدہ سے آتے۔ 2009 میں ناطق ایک طرح سے شہر اقتدار میں ان کے ڈسٹری بیوٹر تھے۔

ناطق کہتے ہیں، ”آج میں صرف تراجم چھپ رہے تھے، میں نے ایک دن اجمل کمال کو اپنے دو افسانے بھیجے اور ساتھ خط لکھا کہ پسند آئیں تو شائع کر دیں ورنہ پھینک دیجیے گا۔ انہوں نے کہا کچھ اور افسانے ہیں تو وہ بھی بھیج دو۔

میں نے مزید تین کہانیاں بھیج دیں۔ اس طرح میرے پانچ افسانوں پر مشتمل گوشہ خاص شائع ہوا۔ آج کے معیار کو دیکھتے ہوئے یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔"

چند ہفتوں کے فرق سے 'دنیا زاد‘ میں ناطق کی دس نظمیں ایک ساتھ شائع ہو گئیں۔ انڈیا سے شمس الرحمن فاروقی جیسے بڑے نقاد نے تعریف کرتے ہوئے پنجاب کے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کی۔

ناطق نے اکادمی کی بک شاپ کو چھوڑ کر اسلام آباد کے مرکز آئی ایٹ میں 'مرزا غالب کتاب گھر‘ کے نام سے رونق لگا لی۔

اس دوران ناطق مسلسل لکھتے اور شائع ہوتے رہے۔ ادبی دنیا ناطق کی رفتار، تنوع اور اثرانگیزی پر حیران و پریشان تھی۔

محمد حنیف نے ناطق کے ایک افسانے کا ترجمہ کیا جسے معروف ادبی میگزین گرانٹا نے 2012 میں شائع کیا۔ناطق کہتے ہیں، ”اس کے بعد مجھے پینگوئن بکس کی طرف سے کال آئی۔ وہ میری کتابیں شائع کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے افسانوں کی کتاب 'قائم دین‘ اور ناول 'نو لکھی کوٹھی‘ شائع کیا۔

"

اب تک علی اکبر ناطق کی 16 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دو افسانوی مجموعے، تین ناول، سات شعری مجموعے، تین تحقیقی و تنقیدی کتابیں اور ایک خود نوشت شامل ہے۔

فکشن، نان فکشن، شاعری اور تنقید جیسی مختلف اصناف میں ناطق نے اپنا آپ منوایا جو ان کی ہمہ گیر شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔

عمارتیں جنہیں گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر کی ضرورت نہ ہو گی

علی اکبر ناطق قلم کے مزدور ہوئے تو مٹی روڑے سے رشتہ نہ توڑا۔

وہ فن تعمیر میں بھی ایک الگ پہچان بنا رہے ہیں۔ اگرچہ راج مستری ان کے خون میں شامل ہے مگر کتابی دنیا سے وہ دوبارہ مٹی گارے میں کیسے اترے۔؟

اس حوالے سے وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”مرزا غالب کتاب گھر میں ایک معمول کی محفل جمی تھی۔ ایک دوست نے کہا وہ گھر بنوا رہا ہے لیکن سارے مستری کنکریٹ کا قید خانہ کھڑا کر دیتے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔

میں نے اسے آفر کی اور اس کا گھر بنا ڈالا۔

”بعد میں امریکہ گیا تو ادبی محفلوں اور پرستاروں کے سبب مالی آسودگی حاصل ہوئی، واپس آیا تو کورونا کی بلا پنجے گاڑھ چکی تھی۔ بیٹھے بیٹھے گھر تعمیر کرنے کا خیال آیا جس کی انفرادیت سوشل میڈیا پر کیش ہو گئی۔"

ناطق کا خیال ہے دنیا کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار سرمایہ دار کا ہے جو ہر چیز کی قدر و قیمت مالی نفع نقصان سے ماپتا ہے، ادب اور فن تعمیر بھی اس کے دست ہوس سے نہ بچ سکے۔

ناطق کے بقول، ”سیمنٹ کے گھر ہمارے ماحول سے ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتے، سرمایہ کار نے ہمیں اس پہ لگا دیا۔ پہلے سیمنٹ اور بجری فروخت ہوتی ہے، پھر اے سی اور ہیٹر۔ ہمارا قدیم فن تعمیر جمالیاتی اعتبار سے زیادہ خوبصورت اور ماحول کے موافق تھا۔ میں نے اسی قدیم فن تعمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔"

ان کے بقول، ”فن تعمیر میں بھی ندرت خیال کام آئی۔

فنکار ہر رنگ میں فنکار ہوتا ہے۔"

اسلام آباد میں جامعہ ولایہ کی شاندار عمارت تعمیر کرنے کے بعد ناطق کا اگلا پڑاؤ سکردو ہے جہاں وہ قدیم طرز کی چار عمارتیں تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔

سولہ کتابیں لکھنے کے بعد ناطق کا تخلیقی مانجھا ڈھیلا نہیں پڑا۔ وہ کہتے ہیں،”پانچ کتابیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ مجھے کائنات کی کوکھ سے ابھی بہت کچھ برآمد کرنا اور لفظوں میں قید کرنا ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد میں اکادمی ادبیات علی اکبر ناطق ناطق کہتے ہیں شائع ہو میں بھی ناطق کی کے بعد

پڑھیں:

ایران نے اسرائیلی ایٹمی راز کیسے چرایا؟

بین الاقوامی ایجنسیوں اور اسرائیلی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایران نے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی داخلی دستاویزات چوری کر کے استعمال کی ہیں، جن میں ایک اہم سالٹیج اسرائیل کا خفیہ نیوکلیئر ریسرچ مرکز، “سورک” (Soreq Nuclear Research Center) بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق انتہائی حساس دستاویزات ایران کے ہاتھ لگ گئیں

اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ریفیلیل گروسّی نے تصدیق کی ہے کہ چوری شدہ مواد میں اسرائیلی ریسرچ سائٹ سے متعلق دستاویزات یہ معلومات موجود تھیں۔

ایرانی ریاستی ذرائعِ ابلاغ اور انٹیلی جنس وزیر اسماعیل خطیب کے مطابق، یہ دستاویزات نہ صرف اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہیں بلکہ ممکنہ طور پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی معلومات پر مشتمل تھیں۔

IAEA ڈائریکٹر جنرل گروسّی نے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی یہ غیر مجاز دستاویز رسائی اس کے تعاونی رویے سے مطابقت نہیں رکھتی اور تمام معلومات ایجنسی اور ممبر ممالک کے حقوق سے متعلق تھیں، نہ کہ انفرادی ملکوں کی ملکیت ۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق انتہائی حساس دستاویزات ایران کے ہاتھ لگ گئیں

اس واقعہ کے تناظر میں یورپ اور امریکا اب ایران پر زور دے رہے ہیں کہ اسے وہ IAEA قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔

سورک ریسرچ سینٹر

سورک ریسرچ سینٹر، تل ابیب کے قریب واقع ادارہ، بنیادی طور پر ایٹمی توانائی کے تحقیقی پروگرام سے منسلک ہے اور ایجنسی کے معائنوں کے تحت ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈائریکٹ بمب فیکٹری نہیں ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

IAEA ایٹمی راز ایران تل ابیب جوہری راز سورک ریسرچ سینٹر

متعلقہ مضامین

  • ایران نے اسرائیلی ایٹمی راز کیسے چرایا؟
  • (سندھ بلڈنگ )کھوڑو سسٹم کا آلہ کار ذوالفقار بلیدی ناقص تعمیرات کروانے لگا
  • جب فیکٹریوں کے لیے خام مال نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا: شاہد خاقان عباسی
  • ریا چکرورتی کی وجہ سے بھائی کا کریئر کیسے تباہ ہوا؟
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • برف میں جما گوشت گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں کیسے پگھلائیں؟ طریقہ جانیں
  • تھرپارکر میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی عید کیسے منائی؟
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے