Express News:
2025-11-03@16:29:03 GMT

بدلتی دنیا اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

انتہائی پیچیدہ مسائل سے اس وقت دنیا نمٹ رہی ہے خاص طور پر ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ لاس اینجلس اور کیلی فورنیا میں آگ کا پھیلنا آج ہمارے سامنے ہے اور لاس اینجلس میں آگ کا پھیلاؤ اس دفعہ اس قدر شدید ہوگا اس بات کا اندازہ نہ تھا۔اس آگ کے پھیلاؤ کی اصل وجہ یہ ہے کہ کر ہ ارض اب دن بہ دن گرمائش کے گھیرے میں جا رہی ہے، سطح سمندر دن بہ دن بڑھے گی اور گلیشیر جو ہزاروںسال سے پگھلے نہیں ان کے پگھلنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ہر آنیوالے برس پچھلے برس سے گرم ثابت ہوگا۔ اس ماحولیاتی نظام کی بربادی کا سبب ہے کیپٹل ازم ہے جس کو ہم سرمایہ دارا نہ نظام کہتے ہیں۔

دنیا کے دو بڑے ممالک جو ماحولیاتی تباہی میں بڑا حصہ ڈالتے ہیں، وہ ہیں امریکا اور چین۔ کیونکہ یہی دونوں ممالک دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں،جتنی بڑی معاشی طاقت اتنا ہی بڑا حصہ ما حولیاتی آلودگی میں، معاشی پہیے کو چلانے کے لیے توانائی درکار ہے اور توانائی اور اس توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع ہیں وہ Fossil Fuels  پر مبنی ہیں۔یعنی تیل، کوئلہ اور گیس۔ یہ توانائی کے ذرائع کاربن کا دھواں Carbon emissionپیدا کرتے ہیں جو یقینا ماحولیاتی آلودگی پیدا کرتے ہیں اور انھیں ذرائع کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں گرمی بڑھ رہی ہے اور گرمی اس دھرتی کی تمام زندہ مخلوق کے وجود کے  لیے خطرہ ہے۔

دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی حدوں کو چھو رہا ہے اور اس نظام کی انتہا میں امریکا کے نو منتخب صدر اور ایلون مسک جیسی سوچ کا ہاتھ ہے اور یہ سوچ کسی ایک یا دو کی سوچ نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ ہے۔توانائی کے دوسرے ذرائع کی طرف جس تیزی سے جا رہے ہیں یہ Fossil Fuels کی سرمایہ داری سوچ اتنی ہی تیزی سے اس عمل کو روک رہی ہے اور اس گروپ کے مفادات کے دعوے دار امریکا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔

جہاں تمام فیصلہ سازی ان کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔اچھے خواص بھی ہیں اس نظام کے جیسا کہ رسد اور ترسیل کے فیصلے مارکیٹ کرتی ہے۔سرمایہ دار اپنی سرمایہ کاری کرتا ہے منافع کمانے کے لیے، اس طرح مقابلہ بازی ہوتی ہے تاکہ معیار بہتر ہو سکے اور اسی معیار کی خاطر بہت سی تخلیقات اور ایجادات بھی ہوئیں، لیکن اب یہ نظام اور یہ سوچ انتہائی خود غرضی کی ہے۔اس سوچ کا انسانیت کی بھلائی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔انسانی فلاح و بہبود اس کے منافع کمانے کے ٹکراؤ میں ہے،لہٰذا یہ نظام انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ایک طرف دنیا میں فاصلے کم ہو رہے ہیںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر۔مگر غربت نے اس دنیا کے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا شوشہ ایک لحاظ سے جمہوریت کے تابع بھی ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے تحت چلتے ہیں ، ان کے پاس آئین ہے اور اس آئین کی ریڑھ کی ہڈی ہے شہر یوں کے بنیادی حقوق۔

مگر ان ممالک کی سوچ وہ ہی پرانی نو آبادیاتی والی سوچ ہے۔جو ان ممالک کی کالونی میں رہے وہ ممالک نہ ہی ترقی یافتہ بن سکے اور نہ ہی خودکفیل ہو سکے۔یہ ممالک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے یہ ممالک ان بڑی طاقتوں کے شکنجے میں ہیں۔

ان ممالک نے ہم جیسی ریاستوں کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔سرد جنگ کے زمانوں میں ہمیں اپنی فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا اور کامیابی سے اپنے مقاصد پائے۔مسلم ممالک کو خصوصی طور پر آگے بڑھنے سے روکا گیا اور یہی وجہ ہے اسلامی ممالک میں جمہوریت پنپ نہیں پائی۔

دنیا کیپٹل ازم کی سمت چلنا چاہتی ہے مگر انسان پرستی اور ماحولیاتی تباہی کی خاطر کیپٹل ازم کے نظام کو اپنی ماہیت تبدیل کرنا ہوگی۔ہم نے اس بات کامشاہدہ کیا ہے کہ سوا برس سے پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آیندہ دس برسوں میں پٹرول گاڑیوں کی وقعت نہ رہے گی۔

مصنوعی ذہانت نے اس دنیا کو جدید دور داخل میں کیا، اس ٹیکنالوجی کے اثرات آنیوالے دس برسوں میں مزیدواضح ہونگے۔توانائی کے متبادل ذرائع بڑی تیزی سے دریافت کیے جا رہے ہیں۔شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کے ذرائع بڑے کامیاب متبادل رہے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے زمانوں میں ، مشرق وسطیٰ بین الاقوامی ٹکراؤ اور تضادات میں صف اول پر رہا، خصوصاستر کی دہائی کے بعد ان تضادات میںمزید شدت آگئی تھی، اس دفعہ یہ خطہ ، شام میں انقلاب کے بعد ایک نئی سمت کی طرف جا رہا ہے۔

ایران میں موجودہ نظام بھی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گا اس لیے تبدیلی اب ناگزیر ہے۔سعودی عرب اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں لارہا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چل سکیں۔امریکا میں دوبارہ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا، دنیا کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا ہے۔امریکا کی اندرونی سیا ست میں بھی یہی چہ مگوئیاں ہیں کہ ٹرمپ امریکا میں بگاڑ پیدا کریگا اور امریکا کی خارجہ پالیسی اس سے شدید متاثر ہوگی او ر یہاں کیپٹل ازم ایک انتہائی صورت اختیار کرے گا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والے دس برس تاریخی اعتبار سے بڑی تبدیلی کے سال ہیں۔انھی دس برسوں میں اگلے پچاس سال کی حکمت عملی چھپی ہو ئی ہے کہ یہ دنیا کس سمت رواں ہوگی۔انھی دس برسوں میں یہ ثابت ہوگا کہ انسان مارس پر اتر سکتا ہے کہ نہیں،جس کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ ہم دھرتی کے مدار پر ایک ایسا گھر یا پھر ہوٹل بنائیں جہاں سیکڑوں لوگ رہیں اور واپس آجائیں۔ان دس برسوں میں کائنات کے حوالے بہت بڑی آگاہی ملنے کی توقعات ہیں۔

 مصنوعی ذہانت دنیا کو ایک ہونے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔انگریزی زبان آفاقی زبان بن جائے گی۔اگلے دس برس ، ٹیکنالوجی کے دس برس اور اگلے پچاس سال،انھیں دس برسوں کے نقش پر چلیں گے۔

پاکستان آگے جا کر آبادی کے حساب سے دنیا کا پانچواں ملک بننے جا رہا ہے اور اسی حوالے سے پاکستان کو بڑے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہماری کوئی تیاری نہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان اور شرفاء ،ہندوستان کی طرح ٹیکنالوجی میں کوئی جوہر نہیں دکھا سکتی ۔

ان کی زندگی کا المیہ ہے اقتدار۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں ایسے الیکٹبلز موجود ہیں جن کے مفادات کی ترجمان ہیں بڑی پارٹیاں۔لوگوں میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی ،لہٰذا کبھی انسانی ذرائع بہتر نہ ہو سکے اور جو انفرااسٹرکچر بہتر کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔

وفاق کی پیچیدگیاں ہم سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔اس ملک کے چار صوبے، چار ثقافتیں، چار زبانیں ان کا آپس میں گہرا تعلق اور پنجاب کا کردار ایک بڑے کے مانند ان تمام باتوں کو سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ توانائی کے کیپٹل ازم جا رہا ہے ہے اور اس ہے اور ا دنیا کے رہے ہیں ہیں اور رہی ہے اور یہ کے لیے

پڑھیں:

’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔

ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔

جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔

میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔

ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔

انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔

اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘

متعلقہ مضامین

  • ملک میں توانائی، آئی ٹی اور معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں: احسن اقبال
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • سونے سے بنا فن یا سرمایہ داری پر طنز؟ دنیا کا مہنگا ترین ٹوائلٹ نیلامی کے لیے تیار
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!