مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں‘ سینیٹر عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اسلام آباد(صباح نیوز)حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان اور سینیٹ مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، پی ٹی آئی نے یکطرفہ طور پر بغیر انتطار کئے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے
آگاہ نہیں کیا ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوران طے شدہ امور پر پیشرفت کا انتظار کئے بغیر مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے گزشتہ اجلاس کے دوران ہماری ان سے گفتگو ہوئی تھی کہ سات دن سے کیا مراد ہوگی؟ عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ٹیم سات دن کو متواتر سات روز تصور کر رہی تھی جبکہ ہم نے کہا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے، پھر اس حوالے سے ان کے ساتھ باقاعدہ اتفاق رائے ہوا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے اور مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں نے اس پر اتفاق کیا تھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی اس چیز کو شامل کیا گیا تھا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی کے کسی راہنما نے یہ بات نہیں کی تھی کہ اگر جوڈیشل کمیشن کا قیام سات دن یا سات ورکنگ ڈیز میں نہ ہوا تو مذاکرات کا چوتھا دور نہیں ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے گزشتہ مذاکرات کے بارے میں سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما نے نہیں کہا تھا کہ سات دن یا 28 جنوری تک کمیشن کے قیام کا اعلان نہ کیا گیا تو مذاکرات کی چوتھی نشست نہیں ہوگی، اس امر کی تصدیق مذاکرات میں شامل حکومتی یا اپوزیشن کے کسی بھی رکن سے کی جاسکتی ہے۔اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس کو لازمی اعلامیہ میں شامل کیا جاتا۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ آج پی ٹی آئی سات دن کی عجیب وغریب تشریح کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جب تک کمیشن نہیں بنے گا ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، گزشتہ تین چار ایام میں دو دو ، تین تین گھنٹے سے طویل تین چار اجلاس کر چکے ہیں، ہماری کمیٹی وزیراعظم سے مل چکی ہے، وکلا سے مشاورت کی جا رہی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے وزیراعظم اور حکومت کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت کی کمیٹی کے کسی رکن کی جانب سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کمیٹی کے علاوہ دیگر کسی بھی فرد کے بیانات کو مذاکرات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ کمیٹی یا میری طرف سے کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے، ہم ہر چیز کو آئین، قانون اور قواعدوضوابط کے مطابق باریک بینی سے دیکھ رہیں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر کے سپیکر اور کمیٹی کی بھی توہین کی ہے کیونکہ یہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جا جا کر کہتے رہے کہ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنوائی جائے۔انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم سے ملاقات کی جنہوں نے کمیٹی کی منظوری دی تھی اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے خاتمہ کا یکطرفہ اعلان کر کے ہم سب کی توہین کی گئی ہے اور پورے مذاکراتی عمل کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور ہم کب تک اس تماشے کا حصہ بنے رہیں گے۔ 28 جنوری کو اگر پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل نہیں ہوتی تو کیا اجلاس منعقد ہو گا ؟، کے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ 28 جنوری کے اجلاس کے حوالے سے پی ٹی آئی نے ابھی تک سپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ نہیں کیا جبکہ قبل ازیں کمیٹی کے قیام کیلئے یہ لوگ چار چار گھنٹے سپیکر سے طویل ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سپیکر قومی اسمبلی کو ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا لہذا سپیکر قومی اسمبلی نے پہلے سے طے شدہ امور کے مطابق 28 جنوری کو مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر روز اور بار بار مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر رہی ہے تاہم 28 جنوری کو اگر پی ٹی آئی کے اراکین نہیں بھی آتے تو ہم اجلاس میں اس حوالیسے غور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں شاید سپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی سے رابطہ ہوا ہے اور وہ اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ان کی رائے لے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 28 جنوری سے قبل مذاکرات کے چوتھے اجلاس نہ ہونے کے بارے میں کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں آتی تو ہم اجلاس میں شرکت کیلئے سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی یہ نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا تاثر سامنے آئے کہ ہماری طرف سے مذاکرات ختم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے تحریری مطالبات 42 دن کے بعد 16 جنوری کو کمیٹی کے اجلاس میں پیش کئے لیکن ہمیں وہ 7 دن بھی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہمارے پاس ہنسی خوشی یا رضا و رغبت کے ساتھ نہیں آئی تھی بلکہ اپنے تمام حربے استعمال کرنے کے بعد آئی تھی اور اگر اب مذاکرات کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یقینا ان کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہوگا۔انہوں نے واضح کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات سنجیدگی کے ساتھ ہوں ۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہ جماعت مذاکرات کیلئے بنی ہی نہیں ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ شاید پی ٹی آئی کے نصاب اور حکمت عملی میں افہام وتفہیم ، مکالمہ، گفتگو وغیرہ موجود ہی نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں 9 مئی یا فائنل کال اور اس طرح کی چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں بات کر کے ان کو اجنبیت محسوس ہو رہی تھی اور پی ٹی آئی کی ڈی چوک کی ذہنیت مذاکرات میں فٹ نہیں ہوسکی۔سینیٹ اراکین کے پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے ایوان بالا کی رولنگ کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو مینڈیٹ تک محدود رکھنا چاہئے اور دیگر عوامل کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پروڈکشن آرڈرز کی عدم تعمیل کو جواز بنا کر مذاکرات کو ختم کرنا دانشمندی نہیں۔انہوں نے کہا کہ جب مذاکرات چل رہے تھے تو بانی پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے حوالے سے تین تین غیر مناسب ٹویٹس کئے لیکن ہم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی بھی چیز کو مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا لیکن پی ٹی آئی نے جو رویہ اختیار کر لیا ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے پیچھے پیچھے جائیں اور کہیں کہ لوٹ آئو، مذاکرات کرو۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے تو اپنا راستہ اختیار کریں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر انہوں نے کہا کہ پی ٹی ا ئی مذاکرات کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کہ پی ٹی ا ئی نے مذاکراتی کمیٹی سات ورکنگ ڈیز جوڈیشل کمیشن پی ٹی ا ئی کے نے کہا کہ ا کہ مذاکرات حوالے سے ا اجلاس میں کمیٹی کے جنوری کو حکومت کی کے قیام نہیں کی رہے ہیں کے کسی سات دن رہی ہے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھارت کے جارحانہ بیانات کے پیش نظر متفقہ جواب دینے کے لیے تمام جماعتوں سے بات کرنے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علی محمد خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ‘سینٹر اسٹیج’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلانا چاہیے، مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت کو آج رات یا کل ہی مشترکہ اجلاس بلا لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سب کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے، حکومت کو کہوں گا کہ اجلاس بلائیں، بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کریں۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان پر بات آجائے تو ہمیں متفقہ طور پر جواب دینا چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی یک جہتی چاہیے تو حکومت اپنی ذات سے نکلے، حکومت کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہو گا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک تصویر آجائے جس میں بانی پی ٹی آئی، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر ایک ساتھ نظر آجائیں، اگر یہ ایک تصویر آ جائے اور بھارت دیکھ لے تو بھارت کی جرات نہیں ہو گی، حکومت انگیج کرے تو میں جا کر بانی پی ٹی آئی سے بات کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی یک جہتی چاہیے تو سب کو انگیج کرے، یہ وقت کھل کر مضبوط فیصلے کرنے کا ہے، بھارتی جارحیت کے خلاف ہم سب ایک ہیں، اکیلے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ملک کو تقسیم کر کے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں پاکستانی بن کر جواب دینا ہے، میرا لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیڈر نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے، پاکستان کے دفاع کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم انتظار میں ہے کہ نواز شریف کا اس پر کیا جواب آتا ہے، نواز شریف کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے، کھل کر بات کرنی چاہیے۔
علی محمد خان نے کہا کہ سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ہم بھائی ہیں، بھائی آپس میں لڑتے بھی ہیں لیکن جب ماں پر بات آ جائے تو بھائی بھائی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت والے دوست ممالک جائیں، دوست ممالک کو بھی انگیج کریں، حکومت والوں کو سعودی عرب، چین اور روس بھی جانا پڑے تو جائیں، یہ تنقید کا وقت نہیں ہے، ہم مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو کیا کرتے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا اقدام ہے لیکن یہ ردعمل ہے، ہمیں پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں تھے، ہمیں دشمن کے خلاف تیار رہنا چاہیے تھا۔
علی محمد خان نے کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات کیے، افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا، افغان طالبان نہیں بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے کیے ہیں۔