اسلام آباد(صباح نیوز)حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان اور سینیٹ مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، پی ٹی آئی نے یکطرفہ طور پر بغیر انتطار کئے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے
آگاہ نہیں کیا ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوران طے شدہ امور پر پیشرفت کا انتظار کئے بغیر مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے گزشتہ اجلاس کے دوران ہماری ان سے گفتگو ہوئی تھی کہ سات دن سے کیا مراد ہوگی؟ عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ٹیم سات دن کو متواتر سات روز تصور کر رہی تھی جبکہ ہم نے کہا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے، پھر اس حوالے سے ان کے ساتھ باقاعدہ اتفاق رائے ہوا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے اور مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں نے اس پر اتفاق کیا تھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی اس چیز کو شامل کیا گیا تھا کہ یہ سات ورکنگ ڈیز ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی کے کسی راہنما نے یہ بات نہیں کی تھی کہ اگر جوڈیشل کمیشن کا قیام سات دن یا سات ورکنگ ڈیز میں نہ ہوا تو مذاکرات کا چوتھا دور نہیں ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے گزشتہ مذاکرات کے بارے میں سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما نے نہیں کہا تھا کہ سات دن یا 28 جنوری تک کمیشن کے قیام کا اعلان نہ کیا گیا تو مذاکرات کی چوتھی نشست نہیں ہوگی، اس امر کی تصدیق مذاکرات میں شامل حکومتی یا اپوزیشن کے کسی بھی رکن سے کی جاسکتی ہے۔اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس کو لازمی اعلامیہ میں شامل کیا جاتا۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ آج پی ٹی آئی سات دن کی عجیب وغریب تشریح کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جب تک کمیشن نہیں بنے گا ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، گزشتہ تین چار ایام میں دو دو ، تین تین گھنٹے سے طویل تین چار اجلاس کر چکے ہیں، ہماری کمیٹی وزیراعظم سے مل چکی ہے، وکلا سے مشاورت کی جا رہی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے وزیراعظم اور حکومت کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت کی کمیٹی کے کسی رکن کی جانب سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کمیٹی کے علاوہ دیگر کسی بھی فرد کے بیانات کو مذاکرات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ کمیٹی یا میری طرف سے کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے، ہم ہر چیز کو آئین، قانون اور قواعدوضوابط کے مطابق باریک بینی سے دیکھ رہیں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر کے سپیکر اور کمیٹی کی بھی توہین کی ہے کیونکہ یہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جا جا کر کہتے رہے کہ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنوائی جائے۔انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم سے ملاقات کی جنہوں نے کمیٹی کی منظوری دی تھی اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے خاتمہ کا یکطرفہ اعلان کر کے ہم سب کی توہین کی گئی ہے اور پورے مذاکراتی عمل کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور ہم کب تک اس تماشے کا حصہ بنے رہیں گے۔ 28 جنوری کو اگر پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل نہیں ہوتی تو کیا اجلاس منعقد ہو گا ؟، کے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ 28 جنوری کے اجلاس کے حوالے سے پی ٹی آئی نے ابھی تک سپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ نہیں کیا جبکہ قبل ازیں کمیٹی کے قیام کیلئے یہ لوگ چار چار گھنٹے سپیکر سے طویل ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سپیکر قومی اسمبلی کو ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا لہذا سپیکر قومی اسمبلی نے پہلے سے طے شدہ امور کے مطابق 28 جنوری کو مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر روز اور بار بار مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر رہی ہے تاہم 28 جنوری کو اگر پی ٹی آئی کے اراکین نہیں بھی آتے تو ہم اجلاس میں اس حوالیسے غور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں شاید سپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی سے رابطہ ہوا ہے اور وہ اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ان کی رائے لے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 28 جنوری سے قبل مذاکرات کے چوتھے اجلاس نہ ہونے کے بارے میں کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں آتی تو ہم اجلاس میں شرکت کیلئے سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی یہ نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا تاثر سامنے آئے کہ ہماری طرف سے مذاکرات ختم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے تحریری مطالبات 42 دن کے بعد 16 جنوری کو کمیٹی کے اجلاس میں پیش کئے لیکن ہمیں وہ 7 دن بھی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہمارے پاس ہنسی خوشی یا رضا و رغبت کے ساتھ نہیں آئی تھی بلکہ اپنے تمام حربے استعمال کرنے کے بعد آئی تھی اور اگر اب مذاکرات کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یقینا ان کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہوگا۔انہوں نے واضح کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات سنجیدگی کے ساتھ ہوں ۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہ جماعت مذاکرات کیلئے بنی ہی نہیں ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ شاید پی ٹی آئی کے نصاب اور حکمت عملی میں افہام وتفہیم ، مکالمہ، گفتگو وغیرہ موجود ہی نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں 9 مئی یا فائنل کال اور اس طرح کی چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں بات کر کے ان کو اجنبیت محسوس ہو رہی تھی اور پی ٹی آئی کی ڈی چوک کی ذہنیت مذاکرات میں فٹ نہیں ہوسکی۔سینیٹ اراکین کے پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے ایوان بالا کی رولنگ کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو مینڈیٹ تک محدود رکھنا چاہئے اور دیگر عوامل کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پروڈکشن آرڈرز کی عدم تعمیل کو جواز بنا کر مذاکرات کو ختم کرنا دانشمندی نہیں۔انہوں نے کہا کہ جب مذاکرات چل رہے تھے تو بانی پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے حوالے سے تین تین غیر مناسب ٹویٹس کئے لیکن ہم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی بھی چیز کو مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا لیکن پی ٹی آئی نے جو رویہ اختیار کر لیا ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے پیچھے پیچھے جائیں اور کہیں کہ لوٹ آئو، مذاکرات کرو۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے تو اپنا راستہ اختیار کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر انہوں نے کہا کہ پی ٹی ا ئی مذاکرات کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کہ پی ٹی ا ئی نے مذاکراتی کمیٹی سات ورکنگ ڈیز جوڈیشل کمیشن پی ٹی ا ئی کے نے کہا کہ ا کہ مذاکرات حوالے سے ا اجلاس میں کمیٹی کے جنوری کو حکومت کی کے قیام نہیں کی رہے ہیں کے کسی سات دن رہی ہے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد یوسف نے بھارتی آل راؤنڈر عرفان پٹھان کے حالیہ بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھیل میں شائستگی اور احترام کو ہر حال میں مقدم رکھا جانا چاہیے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے ایک بیان میں محمد یوسف نے سوال اٹھایا کہ آخر بھارتی میڈیا اور عوام نے عرفان پٹھان کے اس بیان پر داد کیوں دی جس میں انہوں نے شاہد آفریدی کے حوالے سے غیرشائستہ زبان استعمال کی۔

I didn’t mean any disrespect to any sportsman who plays for his country with passion and grace, but why were the Indian media and people praising Irfan Pathan when he said that Shahid Khan Afridi was barking like a dog? Shouldn’t that have been rejected by everyone who talks…

— Mohammad Yousaf (@yousaf1788) September 16, 2025

انہوں نے کہاکہ ایسے الفاظ کبھی بھی تعریف یا پذیرائی کے قابل نہیں ہو سکتے، بلکہ ان سب کو مسترد کرنا چاہیے جو وقار، عزت اور کھیل کی روح کی بات کرتے ہیں۔

محمد یوسف نے زور دیا کہ کھلاڑیوں کے درمیان میدان میں مقابلہ ضرور ہوتا ہے لیکن وہ اپنے ملکوں کے سفیر بھی ہوتے ہیں، اس لیے کسی کھلاڑی کو دوسرے کی تضحیک کرنے کے بجائے کھیل میں وقار اور باہمی احترام کو فروغ دینا چاہیے۔

محمد یوسف نے ٹوئٹ میں اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کی، اور کہاکہ ان کا مقصد کسی کھلاڑی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا جو اپنے ملک کے لیے جذبے اور وقار کے ساتھ کھیلتا ہے۔

Mohammad Yousuf calls Surya Kumar Yadav “Suar” Kumar Yadav ????????????

He also claims umpires were hired by BCCI to give decisions against Pakistan ????pic.twitter.com/LOEIyIXyPC

— Farid Khan (@_FaridKhan) September 16, 2025

واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے محمد یوسف نے کہا تھا کہ بھارت فلمی دنیا سے نکل ہی نہیں پا رہا، یہ امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ردعمل شاہد آفریدی عرفان پٹھان غیرشائستہ زبان محمد یوسف وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
  • قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • سیاسی ماحول میں ہلچل، سینیٹر علی ظفر استعفے جمع کرانے پارلیمنٹ پہنچ گئے
  • اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر