آپ کی پرانی شادی کو نئے دور میں خطرہ ہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اگر آپ بے فکر ہیں کہ آپ کی شادی پرانے زمانے میں ہو چکی تھی اور نئے زمانے کی علیحدگیوں کے رجحان کا آپ کے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑےگا، تو آپ غلطی پر ہیں۔ میرا مقصد ہرگز آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن ممکنہ خطرات کو جان لینا بھی ایک احتیاطی تدبیر ہو سکتی ہے۔
ایک دو دہائیاں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ شادی جوں جوں پرانی ہوتی جاتی ہے اس جوڑے میں علیحدگی مشکل ہوتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ 5 سال گزرنے کے بعد تو کنفرم کر دیا جاتا تھا کہ اب شادی محفوظ ہے۔ اور اس تعلق کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
شادی شدہ زندگی کی ایک اور انشورنس بچوں کی شکل میں ہوتی تھی۔ یوں سمجھا جاتا تھا کہ ایک بار بچے ہو گئے تو والدین ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر شادی چل جائے گی۔
پچھلے چند سالوں میں کئی مشہور جوڑوں کی شادیاں ختم ہوئیں، جنہوں نے لوگوں کو چونکا دیا۔ ان جوڑوں کی شادیوں کے طلاق پر اختتام نے پوری دنیا پر اثر کیا ہے اور لوگ اب شادی کی ضرورت پر سوال کرنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
ان طلاقوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ چاہے تعلقات کتنے ہی مثالی کیوں نہ نظر آئیں، ذاتی اختلافات اور زندگی کے چیلنجز کسی بھی رشتے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان علیحدگیوں کی کچھ مثالیں دیکھیے!
بل گیٹس اور میلنڈا گیٹسبل گیٹس اور میلنڈا گیٹس کی شادی 1994 میں ہوئی تھی، اور 27 سال کے ساتھ کے بعد 2021 میں ان کی طلاق کا اعلان ہوا۔ یہ جوڑا دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، کا بانی تھا اور ایک مضبوط پارٹنرشپ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ان کی علیحدگی کی وجوہات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن انفرادی اختلافات کو اس کا سبب بتایا گیا۔ اس طلاق نے عالمی سطح پر بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔
جیف بزوس اور میکینزی اسکاٹ (ایمازون کا مالک)جیف بزوس اور میکینزی اسکاٹ کی شادی 1993 میں ہوئی تھی، اور 25 سال بعد 2019 میں دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ ان کا تعلق طویل عرصے تک کامیاب سمجھا جاتا تھا، خاص طور پر ایمازون کی کامیابی میں دونوں کی شراکت داری کی وجہ سے۔ تاہم ذاتی اختلافات اور زندگی کے مختلف راستے اپنانے کی خواہش نے ان کی شادی کے اختتام کی بنیاد رکھی۔
شعیب ملک اور ثانیہ مرزاشعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی 2010 میں ہوئی تھی، اور یہ جوڑا 13 سال کے طویل ساتھ کے بعد 2023 میں علیحدہ ہوگیا۔ یہ شادی پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی تھی۔
ان کی علیحدگی کی وجوہات واضح طور پر بیان نہیں کی گئیں، لیکن یہ خبر کھیل اور شوبز کی دنیا میں نمایاں رہی۔
جسٹن ٹروڈو اور سوفی گریگوئیر ٹروڈوکینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو اور سوفی گریگوئیر ٹروڈو نے 2005 میں شادی کی تھی۔ 18 سال کے کامیاب ازدواجی تعلق کے بعد 2023 میں دونوں نے علیحدگی کا اعلان کیا۔
یہ جوڑا اکثر عوامی تقریبات میں ایک خوشگوار تعلق کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے علیحدگی کے بعد اپنے بچوں کی مشترکہ پرورش کی یقین دہانی کرائی۔
ہریتھک روشن اور سوزین خانہریتھک روشن اور سوزین خان کی شادی 2000 میں ہوئی تھی، اور 14 سال بعد 2014 میں ان کے تعلق کا اختتام ہوا۔
دونوں نے طویل عرصے تک اپنے تعلقات کو قائم رکھنے کی کوشش کی، لیکن اختلافات نے اس رشتے کو ختم کر دیا۔ ان کی علیحدگی نے بولی ووڈ کے مداحوں کو مایوس کیا۔
کرشمہ کپور اور سنجے کپورکرشمہ کپور اور سنجے کپور کی شادی 2003 میں ہوئی تھی، لیکن 13 سال بعد 2016 میں ان کی علیحدگی ہو گئی۔ ان کے درمیان اختلافات اور زندگی کے مختلف نظریات اس شادی کے اختتام کی بڑی وجوہات بنے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا کامیاب کیریئر کامیاب شادی کی گارنٹی ہوتا ہے؟
یہ تمام کہانیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ موجودہ دور میں شادی شدہ زندگی کی طوالت اس کے مضبوط ہونے کی گارنٹی نہیں ہے۔ جدید دور کے رجحانات بھی شادی کے ادارے پر اس قدر اثرات ڈال رہے ہیں کہ شادیاں برقرار رکھنا دن بدن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ علیحدگیاں ہو کیوں رہی ہیں؟ڈاکٹر جان گوٹمین انسانی تعلقات کی سائنس میں ایک اتھارٹی ہے۔ اس کی شادی شدہ زندگی پر ریسرچ کو ایک دنیا مانتی ہے۔ گوٹمین کے مطابق شادی شدہ زندگی میں 7 غلطیاں ایسی ہیں جو آپ کی طویل عرصہ پر مشتمل شادی کو بھی ختم کر سکتی ہیں۔
یہ 7 غطیاں کیا ہیں؟
محبت اور توجہ کی گہرائی کو نہ سمجھنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کے جذبات، خوابوں اور زندگی کے اہم لمحات سے بے خبر رہتے ہیں تو آپ کا تعلق سطحی ہو جاتا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کی سالگرہ بھول جاتا ہے، اور وہ یہ سمجھے کہ یہ ایک چھوٹا معاملہ ہے۔ لیکن بیوی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کی زندگی اور جذبات کو اہمیت نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ یہ لاپروای تعلقات میں فاصلے بڑھا سکتی ہے۔
تعریف اور عزت نہ کرنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کے اچھے پہلوؤں پر توجہ دینے کے بجائے صرف ان کی غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں تو عزت اور محبت کمزور پڑ سکتی ہے۔ ایک بیوی اپنے شوہر کی محنت اور قربانیوں کو کبھی نہیں سراہتی بلکہ ہمیشہ اس پر تنقید کرتی ہے۔ شوہر کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں، جس سے ناچاقی اور علیحدگی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک دوسرے کی جانب توجہ نہ دینااگر آپ شریکِ حیات کی طرف سے توجہ کو نظر انداز کرتے ہیں، تو وہ خود کو غیر اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ شوہر بیوی کی جانب سے بات چیت کی کوششوں کو اکثر موبائل پر مصروف رہ کر ٹال دیتا ہے۔ بیوی کو لگتا ہے کہ اس کی باتوں کی کوئی قدر نہیں اور یہ احساس تعلقات کو سرد کر دیتا ہے۔
شریکِ حیات کی رائے کو نظرانداز کرنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کی رائے اور خیالات کو اہمیت نہیں دیتے، تو یہ تعلقات میں طاقت کی غیر مساوی تقسیم پیدا کر دیتا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کے بجٹ کے مشورے کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے۔ یہ رویہ بیوی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس رشتے میں غیر اہم ہے، جو کہ ناراضی اور دوری کا باعث بنتا ہے۔
مسائل کو حل کرنے کی بجائے نظر انداز کرنااگر آپ چھوٹے مسائل کو وقت پر حل نہیں کرتے تو وہ بڑے تنازعات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ بیوی شوہر کو وقت پر بل ادا کرنے کی یاد دہانی کراتی ہے، لیکن وہ اسے ٹالتا رہتا ہے۔ جب بل نہ ادا ہونے کی وجہ سے بجلی کٹ جاتی ہے، تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، اور اس طرح کے رویے تعلقات میں دراڑ ڈال سکتے ہیں۔
پائیدار مسائل کو نظر انداز کرنا
کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کا مکمل حل ممکن نہیں، لیکن ان کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے نقطہِ نظر کو تسلیم نہ کرنے سے تلخی بڑھ سکتی ہے۔ شوہر بچوں کی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول چاہتا ہے جبکہ بیوی نجی اسکول کو ترجیح دیتی ہے۔ دونوں اس مسئلے کو سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، جس سے رشتہ زہر آلود ہو جاتا ہے۔
مشترکہ مقصد کی کمیاگر آپ کی شادی میں کوئی مشترکہ مقصد یا مقاصد نہ ہوں، تو وقت کے ساتھ تعلق بوجھل اور بے معنی لگنے لگتا ہے۔ شوہر اور بیوی ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی اپنی الگ الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کم وقت ساتھ گزارتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا تعلق جذباتی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر جان گوٹمین کا کہنا ہے کہ یہ اصول آپ کے ازدواجی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، لیکن ان پر عمل نہ کرنے سے رشتہ کمزور اور خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پاکستانی معاشرے کے مطابق ان اصولوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے۔
یاد رکھیے! آپ کی شادی نئی ہے یا پرانی، اگر اس میں کوئی ایک فریق بھی اوپر بیان کیے گئے نکات میں سے کسی ایک میں زیادتی کر رہا ہے یا زیادتی سہہ رہا ہے تو ایسا رشتہ ہر وقت علیحدگی کے خطرے سے جڑا رہتا ہے۔
اب آپ کے کرنے کا کام یہ ہے کہ فوری طور پر اپنے رشتوں کا جائزہ لیجیے، اور دیکھیے کہ کہیں جانے انجانے میں آپ ان اصولوں میں سے کسی ایک اصول کو نظر انداز تو نہیں کر رہے جس کی وجہ سے آپ کا جیون ساتھی مشکل زندگی گزار رہا ہے۔ اور کسی بھی موقعے پر آپ کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔
اور اگر آپ اور آپ کے شریک حیات کے درمیان ان 7 باتوں کو لے کر کبھی جھگڑا نہیں ہوا، یا کبھی سنجیدگی سے اعتراض نہیں کیا گیا اور آپ کا مشترکہ فیملی ٹائم ایک خوشگوار وقت گزاری بن جاتا ہے تو آپ کا یہ رشتہ مضبوط ہے اور اس کو جدید زمانے کی ہواؤں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود فیاض ہمہ جہت لکھاری ہیں۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر پچھلے 10سال سے لکھ رہے ہیں۔ ایک کتاب "مرد و عورت" کے مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا پر ان کی 12ہزار کے قریب تحاریر موجود ہیں۔ سماجی تعلقات اور ازدواجیات پر انکی بیشمار تحریریں وائرل ہوتی رہتی ہیں۔
بل گیٹس ثانیہ مرزا جسٹن ٹروڈو جیف بزوس شادی طلاق شعیب ملک علیحدگی کرشمہ کپور ہریتھک روشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بل گیٹس ثانیہ مرزا جسٹن ٹروڈو جیف بزوس شادی طلاق شعیب ملک علیحدگی کرشمہ کپور ہریتھک روشن شادی شدہ زندگی ان کی علیحدگی میں ہوئی تھی اور زندگی کے ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی وجہ سے جاتا تھا سکتی ہے دیتا ہے کے ساتھ نہیں ہے کی شادی اگر ا پ کو نظر رہا ہے میں ہو کے بعد
پڑھیں:
ڈپریشن یا کچھ اور
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔
ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔
دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔
انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔
ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔
پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟
دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔
سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔