Nai Baat:
2025-06-09@21:36:33 GMT

حالات نہیں نیت خراب ہے….؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

حالات نہیں نیت خراب ہے….؟

ایک کہاوت ہے کہ کام کے نہ کاج کے؟دشمن اناج کے‘ آج کل جہاں بھی چلے جائیں ایک ہی بحث چل رہی ہوتی ہے کہ حالات ٹھیک ہیں اور اس بحث‘ تکرار میں ہم کئی بار حدیں پھلانگ لیتے ہیں‘ رشتے داری خراب کر لیتے ہیں دوستی تعلقات میں دراڑیں ڈال لی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف انہی حالات کا رونا رونے والوں سے پوچھیں کہ تسی سگریٹ کیوں پیندے او تے جواب آئے گا بس ایویں ای عادت پئی ہوئی اے‘ کسی اور سے پوچھیں کہ بھئی آپ پان کیوں کھاتے ہو تو کہا جاتا ہے کہ بس عادت پڑ گئی ہے اس طرح ہر دوسرا بندا سگریٹ‘ پان و دیگر علتوں کا شکار ہے اور پھر کہتا ہے کہ اخراجات پورے نہیں ہوتے جبکہ روز پانچ سات سو کا انہی علتوں میں پڑ کر خرچہ کرتے ہیں دوسری طرف جیولرز کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی‘ کپڑے کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بھی بے جا شاپنگ کی جا رہی ہوتی ہے اسی طرح برگر شوارما کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں لائنوں میں لگ کر لوگ زبان کا چسکا پورا کرنے کے لئے بے تاب کھڑے ہوتے ہیں پھر کہتے ہیں حالات ٹھیک نہیں اور یہ رونا مساجد میں گھروں‘ دفاتر میں رویا جاتا ہے آئس کریم کھانے کا دل کر آئے تو آدھی رات کو نیند خراب کر کے بھی اونچی سے اونچی شاپ پر پہنچ جائیں گے پھر کہیں گے یار ملک دے حالات ٹھیک نئیں اور حالات ٹھیک کرنے کے لئے ہم کوشش بھی نہیں کرتے لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں اگر ایک نوکری سے گھر نہیں چلتا تو دوسری نوکری کرنی چاہئیے یہ بھی نہیں کرنا تو پارٹ ٹائم کام کر کے حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حالات ٹھیک نئیںآج کے جدید دور میں آن لائن کاروبارکا دوردورہ ہے کئی لوگ گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں کہتے ہیں کہ جیہڑے ایتھے بکھے اور لہوروی بکھے اور ایسے لوگوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں جو ہر وقت حالات خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ کبھی کسی جانور کو بھی روتے دیکھا ہے کبھی کسی پرندے کو بھی ذخیرہ کرتے دیکھا ہے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی پرندہ بھوکا مرا ہو یہ سب خرافات حضرت انسان ہی میں ہیں جو ہر وقت مرگئے مر گئے کرتے رہتے ہیں ‘ حالانکہ حالات تو ٹھیک ہیں ہماری نیت ٹھیک نہیں اگر معاشی حالات خراب ہوں تو ہم سگریٹ کے دھوئیں میں کیوں رقمیں اڑائیں حالات خراب ہوں تو پان کے تھوک کے ذریعے کیوں حق حلال کی کمائی ضائع کریں اگر حالات خراب ہیں تو بیٹھے بیٹھے پیزا‘ برگر اور شوارما کا بخار کیوں چڑھائیں اگر حالات خراب ہیں تو آدھی رات کو آئس کریم کھا کر جیب کا نقصان کیوں کریں‘ماڑے سے ماڑے گھر کی شادیوں میں بھی فضول خرچی کی جاتی ہے ناک اونچی رکھنے کے لئے؟ اور پھر کئی بار ساری عمر قرض اتارتے گزر جاتی ہے اس طرح جیسے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور 35‘40لاکھ دے کر بھی وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اگر اپنے ملک میں 35‘ 40 لاکھ لگا کر کام شروع کیا جائے تو چھ ماہ بعد بندہ روزانہ 4‘5 ہزار کما سکتا ہے لیکن ہم نے رٹ لگائی ہو ئی ہے کہ مر گئے رڑ گئے دیار غیر جانے والوں کو کون یہ بات سمجھائے کہ یہاں سب کچھ ہے لیکن ہم جتنی باہر جا کر محنت کرتے ہیں اتنی یہاں نہیں کرتے نہ کوشش کرتے ہیں کہ معاشی حالات بہتر ہوں ہم توشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں کشتی حادثہ آئے روز ہو رہا ہے جس میں ایجنٹ جان بوجھ کر کشتی میں زیادہ بندے بٹھا کر ڈبوتے ہیں تاکہ جھنجال پورے سے جان ہی چھوٹ جائے اس دھندے میں ایف آئی اے کے اہلکار بھی ملوث ہیں جو ایجنٹوں سے بھاری معاوضہ لیکر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر ماﺅں کے لخت جگر چھین رہے ہیں مراکش کشتی سانحہ سے پہلے بھی کئی واقعات ہوئے ہر بار ایک دو بندے پکڑے گئے جو عدالتوں کے منہ بند کرکے پھر اس دھندے میں لگ گئے پولیس کو بھی باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے جس سے سہانے سپنے لیکر جانے والے ایجنٹوں کے ہاتھوں لحد میں اتر رہے ہیں ہر واقعہ کے بعد ایک کمیٹی بنتی ہے اور پھراگلے واقعہ تک خاموشی چھا جاتی ہے حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ لاکھوں روپیہ دیکر موت خریدنے والوںکو آخر کب عقل آئے گی اور کب سمجھیں گے کہ ملک میں رہ کر محنت کریں تو حالات زیادہ بہت بہترہو سکتے ہیں روز گارکےلئے بیرون ملک جانا کوئی گناہ نہیں لیکن لیگل طریقے سے جائیں اسی میں ہم سب کا بھلا ہے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ دیارغیرمیں کام کرنے والوں کی زندگی بڑی خوشحال ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں ملک سے جانے والوں کارجحان بڑھتا جا رہا ہے ،لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک پیسے کی ریل پیل ہے لیکن کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ، کیونکہ حقیقت اس سے مختلف ہے تاہم حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ لوگ بیرون ملک کیوں بھاگ رہے ہیں اگر اپنے ملک میں بہتر روز گا ر ملے تو کون اپنوں سے دوررہ کر غیروں کے دیس میں دھکے کھائے اوراپنی جانیں بھی کیوں گنوائے افسوس کی بات یہ ہے ملک کو تجربہ گاہ بنانے والوں نے ملک کو معاشی طور پر کھوکھلا کردیا ہے ، ذاتی مفادات کیلئے نوجوانوں کی زندگیوں سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور مذہب کا نام استعمال کرکے گمراہ کیا جا رہا ہے سے لگتا نہیں کہ وہ اس مکر فریب کو سمجھ سکیں،ہنرمند افراد کیلئے بیرون ممالک قانونی طریقے سے جانا ممکن ہوگا توزرِ مبادلہ ان کے پیاروں اور ملکی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ہوگا، کم تنخواہ ہے تو اپنے اخراجات کنٹرول کریں تتر بٹیر نہ کھائیں تو کون سی قیامت آ جانی ہے سبزیوں میں زیادہ وٹامن ہیں آئس کریم برگرشوارما کے بغیر بھی زندگی اچھی گزر سکتی ہے اپنی نیت ٹھیک رکھیں اور پرندوں کو دیکھیں جوبارش آندھی اور طوفان میں بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں کبھی یہ کر کے تو دیکھیں پھر دیکھیں اللہ کیسے اپنی رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حالات خراب چلے جائیں بیرون ملک کہتے ہیں کرتے ہیں رہتے ہیں رہے ہیں ہے لیکن اور پھر ہیں اور ملک میں کو بھی رہا ہے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ

پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔

 گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔

گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟" انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔

تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔

معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔

انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز مسترد کردیں
  • پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں، مرتضیٰ وہاب
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں، شیخ رشید
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں: شیخ رشید احمد
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں: شیخ رشید
  • انکار کیوں کیا؟