Nai Baat:
2025-04-25@11:33:38 GMT

گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل!

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل!

پولیس میں "دبنگ افسر” کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا غصہ ناک پر دھرا ہو، جو بات بات پر گالم گلوچ کا عادی ہو اور ماتحت عملہ کو سخت سزائیں دیتا ہو ۔ ملازمین کو ان کی جائز چھٹی دینے کے لیے بھی ترلے منتیں کرانا اور دو چار چکر لگوانا معمول ہے ۔ شاید اس ڈیپارٹمنٹ میں اسی کو افسری کہا جاتا ہے ۔ یہاں بہت اچھے آفیسرز بھی ہیں لیکن مجموعی تاثر یہی ہے کہ اگر ماتحت کو گالیاں نہ دیں تو "حکمرانی ” نہیں ہو گی ۔ پولیس افسران کے اردل روم میں گالیوں کے سوا شاید ہی کچھ ہو ، ماتحت کو سامنے کھڑا کر کے اس کی فائل کھولی جاتی ہے اور پھر گالیاں دے کر کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔ میں نے ایک پولیس ملازم سے پوچھا کہ اردل روم میں دی جانے والی سزاﺅں میں ایک لفظ "سنشور” بھی ہے ۔ یہ کیا سزا ہے ؟ کہنے لگا کچھ نہیں ، کمرے میں بلا کر گالیاں وغیرہ دے کر دفع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر آفیسر تو فائل کھول کر پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔ ماتحت کی پیشی کے وقت عموماً افسر کے سامنے کرسی نہیں رکھی جاتی ، ماتحت سامنے کھڑے ہو کر گالیاں سنتے ہیں ، صفائی پیش کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں ۔ کرسی رکھی جائے تو افسر کی میز سے بہت دور رکھی جاتی ہے تاکہ ماتحت کو اپنی "اوقات ” کا احساس رہے۔ ایک بار ایک ایڈیشنل آئی جی رینک کے افسر نے مختلف اضلاع کے تھانیداروں کو لائن حاضر کیا ہوا تھا ۔ میں ان آفیسر کے کمرے میں کافی پی رہا تھا ۔ صاحب بہادر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہ ہوا کہ باہر تھانیدار لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ بہرحال گپ شپ کے بعد باہر نکلا تو ایک واقف تھانیدار مل گیا ۔ اس سے گفتگو کے دوران ہی اس کی باری آ گئی ۔ اس نے فوراً شرٹ کا اوپری بٹن کھولا ، ایک پلو پینٹ سے باہر نکالا ، سینے پر لگا بیج تھوڑا ٹیڑھا کیا اور بال بگاڑ کر اپنی پولیس کیپ بھی ایک طرف جھکا لی ۔ پیشی کے بعد دوبارہ ملا تو میں نے کہا آفیسر کے سامنے اچھے انداز میں جانا چاہیے تم عجیب ہو کہ ڈریس کا حلیہ بگاڑ لیا ۔ ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا : شاہ جی ان افسروں کو ایسے ہی ماتحت چاہئیں جو تھوڑے بوکھلائے ہوئے ، گھبرائے ہوئے اور پاگل پاگل سے لگیں۔ پتا لگے کہ وہ صاحب اور ہم ملازم ہیں ۔ ان کی انا کی تسکین کے سوا اردل روم کیا ہے ؟ اگر میں فل اٹینشن ہوتا تو وہ میری فائل کھول کر اس میں سے کوئی بڑا جرم ڈھونڈنے لگ جاتے اور سزا دیتے، اب انہوں نے غصہ سے وردی ٹھیک کرائی، شرٹ کا بٹن ٹھیک کرایا، دو چار گالیاں بکیں اور دفع ہونے کا کہہ دیا۔ میری جان بچ گئی ۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا ان کی یہ کمزوری اور انا کی تسکین کا طریقہ ہم سب کو پتا ہے اس لیے اب ہم بھی انہیں ایسے ہی چونا لگاتے ہیں۔ میں اس ”دبنگ تھانیدار“ کو دیکھتا رہ گیا جو تھانے کے علاہ افسر چلانے کا گر بھی جان چکا تھا ۔ محکمہ پولیس میں گالیاں سننے والوں میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی رینک تک کے افسران شامل ہیں۔ گالیاں بکنے والوں میں اے ایس پی سے آئی جی رینک تک کے افسران ملوث ہوتے ہیں ۔ محکمہ پولیس دو طبقات میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ جو رینکر کہلاتے ہیں ، دوسری افسر شاہی یعنی پی ایس پی کلاس ہے ۔ اس کلاس سسٹم نے محکمے کو برھمن اور شودر میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔ یہی ڈی ایس پی سے اہلکار تک کا رینکر طبقہ گالیاں سننے کے بعد یہ گالیاں اور رویہ عوام تک پوری ایمانداری سے منتقل کرتا ہے ۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گالیاں بکنے اور گالیاں سننے والوں کا تعلق عموما وردی فورس سے ہے ۔ سول یا کلیریکل سٹاف کے ساتھ یہ رویہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے یا پھر انہیں "فورس” نہیں سمجھا جاتا۔ ماضی میں ایک ڈی آئی جی کو اسی وجہ سے ان کے اپنے ڈرائیور نے گولی مار دی تھی کہ صاحب ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے اور جابر قسم کے آفیسر تھے ۔ اگلے روز ایسا ہی واقعہ لاہور میں بھی پیش آیا۔انسپکٹر سیف اللہ نیازی کا لاہور پولیس میں ایک نام تھا ۔ پرانے تھانیدار تھے ۔ انہیں "دبنگ تھانیدار” سمجھا جاتا تھا۔ اس دبنگ آفیسر کو اسی کے پسٹل سے ایک موٹر مکینک نے قتل کر دیا ۔ اس قتل نے لاہور پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ موٹر ورکشاپ ان کی رہائش گاہ کے ساتھ تھی ۔ ملزم کے مطابق وہ آتے جاتے اسے ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے جس کے ردعمل میں اس نے انہیں قتل کر دیا ۔ میں نے لاہور کے اس دبنگ تھانیدار کی لاش اس حالت میں دیکھی کہ آفیسر اور اہلکار کھڑے ہیں اور ان کے پاﺅں میں تھانیدار کی لاش پڑی ہے۔ سیف اللہ نیازی جیسے تھانیدار کی موت ڈاکوﺅں کے ساتھ کسی مقابلے میں شہادت کی صورت ہونی چاہیے تھی لیکن المیہ دیکھیں وہ اس حال میں ایک موٹر سائیکل مکینک کے ہاتھوں مارے گئے کہ اسلحہ بھی ان کا اپنا تھا اور وجہ بھی وہ خود بنے ۔ پنجاب پولیس میں تمام تر دعووں کے باوجود سیف اللہ نیازی جیسے بے شمار تھانیدار ہیں جو وردی کے زعم میں کمزور شہریوں کی تذلیل کرتے رہتے ہیں ۔ پی ایس پی کلاس کا رویہ تو اپنے ماتحتوں تک محدود ہے لیکن ڈی ایس پی سے کانسٹیبل تک کا عملہ یہ غصہ عوام پر اتارتا ہے ۔میں پنجاب پولیس کے ایسے بہت سے افسران کو جانتا ہوں جن کا ماتحت عملہ روز "صاحب” کے مرنے کی دعا کرتا ہے۔ جن پولیس افسران کے میڈیا سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ بہت ہی بردبار قسم کے افسر ظاہر ہوتے ہیں ان کی اکثریت نے بھی اپنے ماتحتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ ایک بار ایک ایسے ایس پی سے ملنے گیا جن کی مسکراہٹ مشہور ہے ، صحافیوں سے ذاتی دوستی ہے ۔ ان کے عملہ سے بھی سلام دعا ہے ۔ میں گیا تو عملہ سے کہا انہیں میرا بتا دیں ۔ ان کے پی اے سمیت کوئی صاحب کے کمرے میں جانے یا اطلاع دینے کو تیار نہ تھا ۔ ایک دوسرے کو کہنے کے بعد ان کے پی اے نے کہا آپ خود ہی چلے جائیں ، آپ کے تو دوست ہیں ۔ ہم صاحب کے "منہ لگے ” صبح صبح گالیاں سن کر ہمارا منہ خراب ہو جائے گا ۔ سابق ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود یٰسین یاد آتے ہیں ۔انہوں نے محکمہ پولیس کی "اخلاقیات” بہتر کرنے کی بہت کوشش کی ۔اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو آج انسپکٹر سیف اللہ نیازی قتل نہ ہوتا ۔ طارق مسعود یٰسین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن محکمہ میں اب بھی کئی سیف اللہ نیازی موجود ہیں ۔
پلے اور پھر فاﺅل پلے
عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک پولیس میں ایس پی سے میں ایک جاتا ہے کے خلاف کے افسر ہیں اور کے ساتھ کر دیا کے بعد کیا ہو رہا ہے

پڑھیں:

مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔

قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • سلک روڈ کلچر سینٹر میں ’لائف فار آرٹ-لائف فار غزہ‘ آرٹسٹ کیمپ کا آغاز 30 اپریل سے ہوگا
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف
  • عمران خان کو  رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی، لطیف کھوسہ
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا