Nai Baat:
2025-07-26@01:11:24 GMT

گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل!

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل!

پولیس میں "دبنگ افسر” کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا غصہ ناک پر دھرا ہو، جو بات بات پر گالم گلوچ کا عادی ہو اور ماتحت عملہ کو سخت سزائیں دیتا ہو ۔ ملازمین کو ان کی جائز چھٹی دینے کے لیے بھی ترلے منتیں کرانا اور دو چار چکر لگوانا معمول ہے ۔ شاید اس ڈیپارٹمنٹ میں اسی کو افسری کہا جاتا ہے ۔ یہاں بہت اچھے آفیسرز بھی ہیں لیکن مجموعی تاثر یہی ہے کہ اگر ماتحت کو گالیاں نہ دیں تو "حکمرانی ” نہیں ہو گی ۔ پولیس افسران کے اردل روم میں گالیوں کے سوا شاید ہی کچھ ہو ، ماتحت کو سامنے کھڑا کر کے اس کی فائل کھولی جاتی ہے اور پھر گالیاں دے کر کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔ میں نے ایک پولیس ملازم سے پوچھا کہ اردل روم میں دی جانے والی سزاﺅں میں ایک لفظ "سنشور” بھی ہے ۔ یہ کیا سزا ہے ؟ کہنے لگا کچھ نہیں ، کمرے میں بلا کر گالیاں وغیرہ دے کر دفع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر آفیسر تو فائل کھول کر پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔ ماتحت کی پیشی کے وقت عموماً افسر کے سامنے کرسی نہیں رکھی جاتی ، ماتحت سامنے کھڑے ہو کر گالیاں سنتے ہیں ، صفائی پیش کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں ۔ کرسی رکھی جائے تو افسر کی میز سے بہت دور رکھی جاتی ہے تاکہ ماتحت کو اپنی "اوقات ” کا احساس رہے۔ ایک بار ایک ایڈیشنل آئی جی رینک کے افسر نے مختلف اضلاع کے تھانیداروں کو لائن حاضر کیا ہوا تھا ۔ میں ان آفیسر کے کمرے میں کافی پی رہا تھا ۔ صاحب بہادر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہ ہوا کہ باہر تھانیدار لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ بہرحال گپ شپ کے بعد باہر نکلا تو ایک واقف تھانیدار مل گیا ۔ اس سے گفتگو کے دوران ہی اس کی باری آ گئی ۔ اس نے فوراً شرٹ کا اوپری بٹن کھولا ، ایک پلو پینٹ سے باہر نکالا ، سینے پر لگا بیج تھوڑا ٹیڑھا کیا اور بال بگاڑ کر اپنی پولیس کیپ بھی ایک طرف جھکا لی ۔ پیشی کے بعد دوبارہ ملا تو میں نے کہا آفیسر کے سامنے اچھے انداز میں جانا چاہیے تم عجیب ہو کہ ڈریس کا حلیہ بگاڑ لیا ۔ ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا : شاہ جی ان افسروں کو ایسے ہی ماتحت چاہئیں جو تھوڑے بوکھلائے ہوئے ، گھبرائے ہوئے اور پاگل پاگل سے لگیں۔ پتا لگے کہ وہ صاحب اور ہم ملازم ہیں ۔ ان کی انا کی تسکین کے سوا اردل روم کیا ہے ؟ اگر میں فل اٹینشن ہوتا تو وہ میری فائل کھول کر اس میں سے کوئی بڑا جرم ڈھونڈنے لگ جاتے اور سزا دیتے، اب انہوں نے غصہ سے وردی ٹھیک کرائی، شرٹ کا بٹن ٹھیک کرایا، دو چار گالیاں بکیں اور دفع ہونے کا کہہ دیا۔ میری جان بچ گئی ۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا ان کی یہ کمزوری اور انا کی تسکین کا طریقہ ہم سب کو پتا ہے اس لیے اب ہم بھی انہیں ایسے ہی چونا لگاتے ہیں۔ میں اس ”دبنگ تھانیدار“ کو دیکھتا رہ گیا جو تھانے کے علاہ افسر چلانے کا گر بھی جان چکا تھا ۔ محکمہ پولیس میں گالیاں سننے والوں میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی رینک تک کے افسران شامل ہیں۔ گالیاں بکنے والوں میں اے ایس پی سے آئی جی رینک تک کے افسران ملوث ہوتے ہیں ۔ محکمہ پولیس دو طبقات میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ جو رینکر کہلاتے ہیں ، دوسری افسر شاہی یعنی پی ایس پی کلاس ہے ۔ اس کلاس سسٹم نے محکمے کو برھمن اور شودر میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔ یہی ڈی ایس پی سے اہلکار تک کا رینکر طبقہ گالیاں سننے کے بعد یہ گالیاں اور رویہ عوام تک پوری ایمانداری سے منتقل کرتا ہے ۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گالیاں بکنے اور گالیاں سننے والوں کا تعلق عموما وردی فورس سے ہے ۔ سول یا کلیریکل سٹاف کے ساتھ یہ رویہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے یا پھر انہیں "فورس” نہیں سمجھا جاتا۔ ماضی میں ایک ڈی آئی جی کو اسی وجہ سے ان کے اپنے ڈرائیور نے گولی مار دی تھی کہ صاحب ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے اور جابر قسم کے آفیسر تھے ۔ اگلے روز ایسا ہی واقعہ لاہور میں بھی پیش آیا۔انسپکٹر سیف اللہ نیازی کا لاہور پولیس میں ایک نام تھا ۔ پرانے تھانیدار تھے ۔ انہیں "دبنگ تھانیدار” سمجھا جاتا تھا۔ اس دبنگ آفیسر کو اسی کے پسٹل سے ایک موٹر مکینک نے قتل کر دیا ۔ اس قتل نے لاہور پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ موٹر ورکشاپ ان کی رہائش گاہ کے ساتھ تھی ۔ ملزم کے مطابق وہ آتے جاتے اسے ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے جس کے ردعمل میں اس نے انہیں قتل کر دیا ۔ میں نے لاہور کے اس دبنگ تھانیدار کی لاش اس حالت میں دیکھی کہ آفیسر اور اہلکار کھڑے ہیں اور ان کے پاﺅں میں تھانیدار کی لاش پڑی ہے۔ سیف اللہ نیازی جیسے تھانیدار کی موت ڈاکوﺅں کے ساتھ کسی مقابلے میں شہادت کی صورت ہونی چاہیے تھی لیکن المیہ دیکھیں وہ اس حال میں ایک موٹر سائیکل مکینک کے ہاتھوں مارے گئے کہ اسلحہ بھی ان کا اپنا تھا اور وجہ بھی وہ خود بنے ۔ پنجاب پولیس میں تمام تر دعووں کے باوجود سیف اللہ نیازی جیسے بے شمار تھانیدار ہیں جو وردی کے زعم میں کمزور شہریوں کی تذلیل کرتے رہتے ہیں ۔ پی ایس پی کلاس کا رویہ تو اپنے ماتحتوں تک محدود ہے لیکن ڈی ایس پی سے کانسٹیبل تک کا عملہ یہ غصہ عوام پر اتارتا ہے ۔میں پنجاب پولیس کے ایسے بہت سے افسران کو جانتا ہوں جن کا ماتحت عملہ روز "صاحب” کے مرنے کی دعا کرتا ہے۔ جن پولیس افسران کے میڈیا سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ بہت ہی بردبار قسم کے افسر ظاہر ہوتے ہیں ان کی اکثریت نے بھی اپنے ماتحتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ ایک بار ایک ایسے ایس پی سے ملنے گیا جن کی مسکراہٹ مشہور ہے ، صحافیوں سے ذاتی دوستی ہے ۔ ان کے عملہ سے بھی سلام دعا ہے ۔ میں گیا تو عملہ سے کہا انہیں میرا بتا دیں ۔ ان کے پی اے سمیت کوئی صاحب کے کمرے میں جانے یا اطلاع دینے کو تیار نہ تھا ۔ ایک دوسرے کو کہنے کے بعد ان کے پی اے نے کہا آپ خود ہی چلے جائیں ، آپ کے تو دوست ہیں ۔ ہم صاحب کے "منہ لگے ” صبح صبح گالیاں سن کر ہمارا منہ خراب ہو جائے گا ۔ سابق ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود یٰسین یاد آتے ہیں ۔انہوں نے محکمہ پولیس کی "اخلاقیات” بہتر کرنے کی بہت کوشش کی ۔اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو آج انسپکٹر سیف اللہ نیازی قتل نہ ہوتا ۔ طارق مسعود یٰسین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن محکمہ میں اب بھی کئی سیف اللہ نیازی موجود ہیں ۔
پلے اور پھر فاﺅل پلے
عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک پولیس میں ایس پی سے میں ایک جاتا ہے کے خلاف کے افسر ہیں اور کے ساتھ کر دیا کے بعد کیا ہو رہا ہے

پڑھیں:

دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟

 ’مجھے نہیں پتہ تھا میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔ میں تو بس جینے کی کوشش کر رہی تھی‘ یہ الفاظ تھے 24 سالہ ریچل کے جنہوں نے دبئی کے ایک ریستوران میں بطور ویٹرس کام شروع کیا لیکن جلد ہی وہ ٹک ٹاک اسٹار اور مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار بن گئیں۔

یہ کہانی کیمرے کے پیچھے ایک ایسی عورت ہے جو مس یونیورس فلپائنز 2025 میں خود ہی اپنا میک اپ اور بال بناتی تھی، جو بغیر کسی اسٹائلسٹ یا ٹیم کے فلپائن واپس گئی، اور جس نے لپ اسٹک کا رنگ اپنے بھائی کی رائے پر چنا۔ وہ مس یونیورس فلپائنز کے مقابلے میں اورینٹل مندورو کی نمائندگی کر رہی تھیں، جو منیلا سے 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک صوبہ ہے۔

ریچل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دسمبر 2022 میں جب وہ پہلی بار دبئی آئیں، تو اُن کا مقصد شہرت، تاج یا ٹک ٹاک فالوورز حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے والد کے کووڈ کے دوران انتقال کے بعد صرف اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل تھا۔ میں سورج کی گرمی میں لمبے وقت تک کام کرنے کی عادی نہیں تھی۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ کچھ کرنا ہوگا۔

وہ کہتی ہیں جب وہ گلف نیوز کے دفتر آئیں اس وقت وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کی یہ محنت، صبر، اور خاموش خواب ایک دن انہیں وائرل فیم اور مس یونیورس فلپائنز 2025 جیسے بڑے مقابلے میں لے جائے گا۔ 13 سال کی عمر سے اب تک 170 سے زائد مقابلوں میں حصہ لینے والی ریچل بتاتی ہیں کہ میری سب سے پہلی دلچسپی حسن کے مقابلے رہے ہیں اور دبئی میں کام اور وطن کی یاد میں اس خواب کو دوبارہ جینا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ انجوائمنٹ کے لیے ایک ویڈیو بنا کر دیکھتے ہیں، لیکن وہ ویڈیو اچانک وائرل ہو گئی جس سے میں حیران رہ گئی۔ یہ ویڈیو محض ایک مشغلے کے طور پر شروع ہوئی، لیکن جلد ہی ان کی زندگی بدل گئی۔ ریچل بتاتی ہیں کہ میں نے خود سے کہا کہ اگر لوگوں کو یہ پسند آیا ہے تو شاید میں اور بھی کر سکتی ہوں اور انہوں نے واقعی بہت کچھ کیا۔ آج ریچل کے صرف ٹک ٹاک پر 1.2 ملین سے زائد فالوورز ہیں لیکن ان کی کامیابی کسی ایک رات کی کہانی نہیں ہے۔

مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی، کوئی گلیم اسکواڈ نہیں۔ میں اپنے بھائی سے پوچھتی تھی آج کے ایونٹ کا کیا رنگ ہے اور پھر اپنا میک اپ ویسا کرتی،‘ وہ کہتی ہیں ’یہ تھکا دینے والا تھا، لیکن ناقابلِ فراموش تھا اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا، دبئی نے مجھے شکر گزار ہونا سکھایا۔ میں نے سوچا تھا کہ یہاں تمام فلپائنی بس محنت سے کام کرتے ہیں اور پیسے گھر بھیجتے ہیں۔ مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کی کمیونٹی سے اتنی محبت ملے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: ‘مس یونیورس’ کا تاج 60 سالہ حسینہ نے سجا لیا

اپنی کامیابیوں کے بارے میں وہ مزید بتاتی ہیں کہ انہیں حیرت ہوئی جب متحدہ عرب امارات میں فلپائنی لوگ انہیں مالز اور ریستورانوں میں پہچان کر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ اور جس ہفتے مس یونیورس کی کہانی لکھی، میرے بچوں کے اسکول کی 3 فلپائنی ماؤں نے کہا کہ وہ کتنی فخر محسوس کرتی ہیں، جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ نے میرے دل کو چھو لیا ہے۔

اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے تاج نہیں جیتا لیکن جب لوگ میرے ٹاپ 12 میں نہ آنے پر رو رہے تھے تب میں نے جانا کہ میں ان کے دل پہلے ہی جیت چکی ہوں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ مکمل ہوں، جسم، چہرہ، جواب سب کچھ پرفیکٹ ہو لیکن میں ہمیشہ خود کو یاد دلاتی تھی کہ میں یہاں کیوں ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کو متاثر کرنا تھا، صرف تاج جیتنا نہیں۔

ریچل کا کہنا تھا کہ ’میں خود کو خودساختہ اس لیے کہتی ہوں کیونکہ میں نے یہ سب خود بنایا۔ نہ کوئی مینیجر، نہ کوئی ٹیم۔ بس میں خود تھی‘۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگرچہ انہیں مشہور ہونے سے بہت مواقع ملے، لیکن وہ سوشل میڈیا کے نقصانات سے بھی واقف ہیں۔ ’لوگ سمجھتے ہیں وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ذاتی زندگی تو جیسے ختم ہو گئی۔ اس لیے کبھی کبھار میں بریک لیتی ہوں۔ سوشل میڈیا ڈیٹاکس واقعی ضروری ہے‘۔

ٹک ٹاکر کہتی ہیں کہ اگر میں اپنے خاندان کی مدد کر سکی، اور کسی ایک شخص کو بھی خوابوں کے پیچھے بھاگنے کی ہمت دے سکی، تو یہی میری کامیابی ہے۔ اپنے خواب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’نہ بیوٹی پیجینٹس، نہ ٹک ٹاک، میں فنکار بننا چاہتی تھی اور یہی میرا پہلا خواب تھا میں ٹی وی پر آنا چاہتی تھی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی موقع ملا، تو میں تیار ہوں۔ ڈرامہ، ہارر، کچھ بھی۔ بس خود کو ظاہر کرنے کا موقع ہو اور اگر کسی فلم کی آفر آئی تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹک ٹاکر مس یونیورس فلپائنز 2025

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • طویل عرصے سے مفرور پی ٹی آئی رہنما مراد سعید کیا سینیٹ کا حلف اٹھائیں گے؟
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • عمران خان کے دستخط شدہ بیٹ کی نیلامی کیلئے 10 کروڑ کی پیشکش، خاتون کارکن کا بیچنے سے انکار
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر