جگے ماریا لائل پور ڈاکا تے ٹلیاں کھڑک گیاں تے ٹرمپ چکیا حلف امریکا تے ٹلیاں پاکستان کھڑک گیاں ۔یقین کریں کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا اتناانتظار امریکا میں نہیں تھا اس کی جماعت ریپبلکن کو نہیں تھا بلکہ خود ٹرمپ کو نہیں تھا کہ جتنا پاکستان میں ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کو تھا ۔ ٹرمپ نے آتے ہی جو بائیڈن کے 80ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کر دیا اور درجنوں نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیئے جن میں کیپیٹل ہل پر حملے کرنے والے 1500لوگوں کو عام معافی دے دی لیکن بانی پی ٹی آئی کا ذکر تک نہیں کیا کہ جس کا پاکستان میں اس دن سے بہت چرچا ہو رہا تھا کہ جس دن سے ڈونلڈ ٹرمپ جیتے تھے ۔ ٹرمپ کے حوالے سے کچھ لوگوں نے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں اور اب بھی ہیں کہ ٹرمپ یہ کر دے گا وہ کر دے گا بلکہ ٹرمپ جدوں آئے گا تے لگ پتا جائے گا جس دن سے ٹرمپ نے الیکشن جیتا تے اج خوشیاں دے نال مینوں پے گئے نے حال ۔ کوئی اس قسم کا ماحول تھا ۔ ایک بڑے ٹی وی چینل پر ایک سینئر صحافی لیکن ہم خیال صحافی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ٹرمپ نے جس دن حلف اٹھانا ہے اس کے دو دن بعد وہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے متعلق ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرے گا جیسے کہ اس نے بنگلا دیش کے الیکشن کمیشن کے متعلق جاری کیا تھا حالانکہ اس وقت وہ صدر ہی نہیں تھے لیکن ہوا کیا کہ ٹرمپ نے تو اپنی تقریر میں میرے قائد انقلاب مرشد کا ذکر تک نہیں کیا ۔ ذکر تو دور کی بات ہے وہ ذلفی بخاری کے ٹرمپ کے داماد سے قریبی تعلق وہ ایک سے زائد لابنگ فرم جنھیں کروڑوں روپے دیئے جاتے ہیں یہ سب مل کر Oath Taking Ceremonyکا ایک Invitation Cardحاصل نہیں کر سکے جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی وہاں پہنچے ہوئے تھے ۔ اسی حوالے سے سوشل اور قومی الیکٹرانک میڈیا پر بلاول بھٹو زرداری کے دعوت نامے کی بھی خبریں آئیں اور ہم نے بھی اپنے ایک کالم میں اس کا ذکر کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایک غیر مصدقہ خبر ہے کہ جس کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع تصدیق نہیں کر رہے لیکن اس افواہ پر بھی انصافی سوشل میڈیانے باقاعدہ خبر کے طور پر پوسٹ وائرل کر دی کہ یہ دعوت نامہ بلاول نے سوا ملین یعنی34کروڑ میں خریدا ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور خود بانی پی ٹی آئی اب امیدوں کا مرکز کسے بناتے ہیں ۔
کچھ لوگ اس کے باوجود بھی حکومت کے جانے کی باتیںکر رہے ہیں اس لئے کہ کیا حکومت جانے والی ہے ۔ یہ وہ سوال ہے کہ جو پاکستان کی سیاست میں کسی وقت آﺅٹ آف ڈیٹ نہیں ہوتا ۔88سے لے کر مشرف مارشل لاءتک چار حکومتیں اور پھر مشرف دور میں کہ جس میں اسٹیبلشمنٹ کا چیف خود حکمران تھا اس دور میں بھی میر ظفر اللہ خان جمالی کے متعلق قیاس آرائیاںہوتی رہی اور پھر اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی انھیں ہٹا کر پہلے چند ماہ کے لئے چوہدری شجاعت اورپھر شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد 2008میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکوت آئی تو چند ماہ بعد ہی پاکستان کا میڈیا اسے ہر رات گرا کر سوتا تھا لیکن بہر حال وہ حکومت پانچ سال پورے کر گئی لیکن پھر بھی یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر روایت کو برقرار رکھا گیا اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔2013میں نواز لیگ کی حکومت آئی تو پھر نواز شریف کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور انھیں بھی نا اہل قرار دے دیا گیا اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی آ گئے اور اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت کو بھی تین سال آٹھ ماہ بعد ختم کر دیا گیا ۔ فروری کے الیکشن پر دھاندلی کے نام پر حکومت کے خلاف محاذآرائی شروع کر دی گئی تھی لیکن ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ اس بار اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے لیکن مختلف جگہ پر سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے چند ماہ پہلے اسی موضوع پر کہا تھا کہ تحریک انصاف ابھی حکومت کے خلاف سنجیدہ نہیں ہے اور پھر حکومت کے خلاف ہر مزاحمت ناکام ثابت ہوئی لیکن اب حکومت کے خلاف جو بھی ہو گا اس میں حکومت گرانے کی پوری کوشش کی جائے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو معیشت کی بہتری کے لئے جتنے بھی سخت اقدامات لینا تھے وہ کم و بیش لئے جا چکے ہیں بلکہ اب تو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خبریں ہیں تو اسی لئے اب پوری کوشش ہو گی کہ کسی بھی طرح جیسے بھی ممکن ہو حکومت کو گھر بھیجا جائے اور عوام کو ریلیف دینے کا کام خود کر کے نیک نامی کمائی جائے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ تمام ہتھکنڈے ناکام ہونے کے بعد پھر ٹرمپ سے امیدیں لگائی گئی اور اب ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کی ایک غلطی کے سبب آئینی بنچ کا ایک کیس ریگولر بینچ میں لگنے پر سپریم کورٹ میں کیا قیامت کے حالات ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف مذاکرات کے لئے شرط اول ہی یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ ہر Attemptناکام ہونے کے بعداب پھر نئے سرے سے صف بندی ہو رہی ہے لیکن 190پونڈ کیس میں سزا کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کا تو پتا چل چکا ہے لہٰذا ہوا میں جتنی مرضی فائرنگ کر لیں لیکن نشانہ پر کوئی گولی نہیں لگے گی ۔ اس لئے کہ سٹیبلشمنٹ اور حکومتی اتحاد ایک ساتھ ہیں ۔
اب آخری بات کہ تحریک انصاف نے اچانک مذاکرات کے خاتمے اور پھر مشروط بحالی کا اعلان کیوں کیا ۔ حکومت کی جانب سے بیانات ضرور آئے لیکن مذاکراتی کمیٹی نے باضابطہ طور پر جوڈیشل کمیشن کے متعلق کچھ نہیں کہا اور اگر مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے کچھ کہا بھی جاتا تو اس کے لئے مزید مذاکرات ہو سکتے تھے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد اب ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ امیدیں ہیں کہ جو کام ٹرمپ نہیں کر سکا اب وہ شاید ٹرمپ انتظامیہ کر دے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے متعلق کہ ٹرمپ ٹرمپ کے نہیں کر اور پھر دیا گیا کے بعد کے لئے تھا کہ
پڑھیں:
موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-4
غزالہ عزیز
پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔
یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔
پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔