Jasarat News:
2025-07-25@12:55:11 GMT

سوفا معاہدہ اور جاپانی عوام کا بدلتا ہوا موڈ

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

سوفا معاہدہ اور جاپانی عوام کا بدلتا ہوا موڈ

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایٹمی تباہی نے جاپان کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا۔ 7 سال تک امریکی نگرانی میں رہنے کے بعد 1952ء میں جاپان نے سان فرانسسکو معاہدے کے تحت آزادی حاصل کی لیکن خطے کی صورتحال کے پیش نظر اب بھی جاپان کو ایک ایسے اتحادی کی ضرورت تھی جو نہ صرف اس کی سلامتی کو یقینی بنائے بلکہ سرد جنگ کے دوران اسے سوویت یونین اور چین جیسی طاقتوں سے تحفظ بھی فراہم کرے۔ ایٹمی تباہی اور معاشی مشکلات کے ساتھ دفاعی طاقت محدود ہونے کی وجہ سے اس وقت جاپان نے امریکا کے ساتھ دفاعی تعاون کا راستہ اختیار کیا، اور یوں 1960 میں ’’اسٹیٹس آف فورسز ایگریمنٹ‘‘ (SOFA) کے نام سے ایک معاہدہ وجود میں آیا۔ یہ معاہدہ جاپان اور امریکا کے درمیان لانگ ٹرم تعاون کی بنیاد بنا، جس کے ذریعے امریکی افواج کو جاپان میں قیام اور آپریشن کی اجازت ملی لیکن یہ معاہدہ اپنے پہلے ہی دن سے ایک متنازع شکل میں سامنے آیا، جس کی وجہ اس معاہدے کا عمومی تاثر تھا۔ معاہدے کے ناقدین کے مطابق یہ معاہدہ امریکا کو ایک بالادست قوت اور جاپانی قوانین سے مستثنیٰ ہونے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ سوفا معاہدے کے مطابق امریکی فوجی اڈے جاپانی حدود میں رہنے کے باوجود امریکی کنٹرول میں ہیں اور امریکی اہلکاروں پر جاپانی قوانین کا اطلاق جزوی طور پر ہی ہوتا ہے، جبکہ اس معاہدے میں جاپانی حکومت کو امریکی فوجی آپریشنز اور سازو سامان پر محدود نگرانی کا حق دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ چونکہ عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا تھا لہٰذا اس معاہدے کے فوراً بعد ہی جاپانی عوام نے احتجاج کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے اس معاہدے کو ’’امریکی تسلط‘‘ کی علامت قرار دیا اور مظاہروں کے ذریعے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ ناقدین نے اس معاہدے کو جاپانی خودمختاری خاص طور پر اوکیناوا کے عوام کے لیے ایک سوالیہ نشان قرار دیا، جہاں امریکی فوجی اڈے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ عوامی خدشات نے مزید شدت اختیار کی، جن کی بنیاد حقیقی واقعات اور مسائل پر تھی۔ جیسا کہ سوفا معاہدے کے تحت امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی حادثے یا جرم کے ارتکاب کی صورت میں جاپانی حکام کی جانب سے قانونی اقدامات کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ آنے والے وقت میں جاپانی عوام کے یہ خدشات سچ ثابت ہوئے جس کی ایک مثال 2004ء میں ہونے والا ایک واقعہ ہے جب اوکیناوا یونیورسٹی کیمپس میں امریکی ہیلی کاپٹر کو ایک حادثہ پیش آنے کے بعد امریکی افواج نے جائے وقوعہ کو سیل کر کے جاپانی پولیس کو تحقیقات سے روک دیا۔ اس واقعے کے علاوہ مزید چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اس معاہدے کو عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اوکیناوا میں وقتاً فوقتاً امریکی فوجیوں کے ہاتھوں سنگین جرائم کے ارتکاب کے واقعات بھی سامنے آتے رہے، اوکی ناوا جہاں یہ اڈے قائم ہیں کی مقامی آبادی کو امریکی طیاروں کی نچلی پروازوں سے شدید تحفظات ہیں جو ان کے لیے شور اور حادثات کا خطرہ بنی رہتی ہیں۔ اوکی ناوا کے علاوہ شیمانے اور یاماگوچی کے رہائشی بھی ان امریکی طیاروں کی نچلی پروازوں سے پریشان رہتے ہیں، جن سے حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ مزید برآں 1995ء میں امریکی فوجیوں کی جانب سے ایک اسکول کی طالبہ کے ساتھ زیادتی نے جاپانی عوام کے غم و غصے کو مزید بھڑکایا۔ جاپانی شہری اس بات پر بھی خاصے برہم نظر آتے ہیں کہ امریکی فوجی اہلکاروں کو گاڑیوں پر کم یا معاف شدہ ٹیکس کی سہولتیں حاصل ہیں، ناراض شہری برملا اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس سے مقامی حکومتوں کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوتا ہے۔ دوسری جانب امریکا کثیر الجہت مفادات کی بنا پر اس معاہدے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ان مفادات میں تزویراتی (اسٹرٹیجک) کنٹرول اور دفاعی امور کے علاوہ امریکا کے معاشی مفادات بھی شامل ہیں۔

جاپان میں امریکی موجودگی اسے چین، روس اور شمالی کوریا جیسے خطروں پر نظر رکھنے کا بھرپور موقع فراہم کرتی ہے جبکہ کوئی بھی ایسی صورتحال جس میں خطے میں امریکا یا اس کے اتحادیوں کے مفادات متاثر ہو رہے ہوں تو انہیں فوری تحفظ فراہم کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے، مزید برآں جاپان میں فوجی اڈے رکھنے سے امریکا کے دفاعی اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اگر ماضی کی جاپانی حکومتوں کے مؤقف کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک یہ کہتے ہوئے معاہدے میں ترمیم کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس سے جاپان۔ امریکا تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم، موجودہ وزیراعظم شیگیرو اِشیبا نے عوامی تحفظ اور خودمختاری کو بہتر بنانے کے لیے اب معاہدے میں ترمیم کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، ایک سروے کے مطابق، جاپان کے47 پری فیچرز ہیں جن میں سے33 پری فیکچرز میں کرائے گئے سروے کے نتائج کے مطابق26 پری فیکچرز نے اس معاہدے میں ترمیم کی حمایت کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عوامی شعور اور ماضی کے واقعات کے باعث اب معاہدے میں تبدیلی کی ضرورت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

سوفا معاہدے کے مخالفین کا بیانیہ یہ ہے کہ اس معاہدے میں تبدیلیوں سے جاپانی خودمختاری کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور اس سے عوامی شکایات کم ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں جاپان، امریکا تعلقات کو مزید متوازن بنائیں گی۔ سوفا معاہدہ کے مخالفین کے مطابق یہ معاہدہ ہرچند کہ جاپان- امریکا تعلقات کی بنیاد ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اطلاق کی وجہ سے جن مسائل نے جنم لیا ہے وہ جاپانی عوام اور حکومت کے لیے اب ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدے میں ترمیم نہ صرف عوامی خدشات کو دور کرے گی بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئے اور مضبوط دور میں داخل کرے گی، جہاں جاپانی عوام کی خودمختاری اور تحفظ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

دوسری جانب یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ یہ معاہدہ ختم ہو۔ ختم ہونا تو بہت دور کی بات ہے اس میں کوئی ترمیم بھی لائی جائے، کیونکہ سوفا نہ صرف جاپان اور امریکا کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہے بلکہ معاشی طور پر بھی امریکا کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہ معاہدہ امریکی افواج کو جاپان میں قیام اور آپریشنز کے لیے قانونی حیثیت ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ امریکا کو معاشی فوائد کا حامل بھی ہے۔ واضح رہے کہ جاپان امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کے لیے سالانہ اربوں ین خرچ کرتا ہے۔ یہ اخراجات جاپانی عوام کے ٹیکس سے پورے کیے جاتے ہیں، جبکہ امریکا کو اس سے اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کا فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان موجود دفاعی سازو سامان کی فروخت معاہدے کے تحت، جاپان کو امریکی اسلحہ اور دفاعی سازو سامان خریدنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جس سے امریکا کی دفاعی صنعت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، اس کے علاوہ جاپان امریکی فوجی اڈوں کی تعمیر و مرمت کا خرچ بھی برداشت کرتا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا ان اڈوں کی دیکھ بھال پر اضافی خرچ کیے بغیر خطے میں اپنے فوجی آپریشنز جاری رکھ سکتا ہے۔اب جبکہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آچکی ہے اس معاہدے میں ترمیم کے امکانات اور بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں اتحادی ممالک سے دفاعی اخراجات کی مد میں زیادہ شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا، اس پس منظر میں، ٹرمپ حکومت کا آئندہ ممکنہ مؤقف جاپانی حکومت پر مزید مالی ذمہ داری عائد کرنے کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔

ٹرمپ حکومت ہر صورت اس بات کو یقینی بنانا چاہے گی کہ معاہدے میں کوئی بھی ترمیم امریکی افواج کی آپریشنل آزادی یا معاشی مفادات کو متاثر نہ کرے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے نزدیک یہ معاہدہ خطے میں امریکی اثر رسوخ خصوصاً چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی دفاعی تیاریوں کے تناظر میں ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں عوامی دباؤ اور مقامی حکومتوں کی تشویش جاپانی پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو تقویت دے سکتی ہیں، لیکن اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکی مخالفت ان کوششوں کو محدود کر سکتی ہے۔

ایک دوسری رائے کے مطابق جاپانی حکومت زمینی حقائق کے پیش نظر جاپان امریکا اتحاد کو نقصان سے بچانے کے لیے معاہدے کی بنیادی ساخت کو چھیڑنے سے گریز کرے گی لیکن ساتھ ہی اس بات کا امکان موجود ہے کہ معاہدے سے متعلق عوامی تشویش کو آپریشنل تبدیلیوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ امکان بہر حال موجود ہے کہ کسی بھی فارمولے کے تحت معاہدے میں تبدیلی کی کوششیں دوطرفہ تعلقات کو پیچیدہ بنانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سوفا معاہدہ جو بظاہر تو دفاعی ہے، لیکن اس کے معاشی پہلو امریکا کے لیے انتہائی فائدہ مند ہیں لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا سب سے پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، معاہدے میں ترمیم کے امکانات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔ جاپانی حکومت عوامی تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاہدے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا جاپان امریکی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے کوئی بڑا قدم اٹھانے کے قابل ہو گا یا نہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: معاہدے میں ترمیم امریکی فوجی ا اس معاہدے میں جاپانی حکومت جاپانی عوام میں امریکی معاہدے کے تعلقات کو کہ امریکا میں جاپان معاہدے کو جاپان میں ان امریکی امریکا کے یہ معاہدہ کے مطابق کی ضرورت کے علاوہ عوام کے کے ساتھ ہوتا ہے کرنے کی کے تحت کے لیے کی وجہ کو ایک اس بات

پڑھیں:

بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو

اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
  اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا
  • بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا معاہدہ
  • پاکستان اور افغانستان کے مابین درآمدی اشیاء پر ٹیرف میں کمی کا معاہدہ
  • ضلع لوئر کرم اور صدہ کے قبائل کے درمیان ایک سال کے لیے امن معاہدہ طے پاگیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ طے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ، دستخط بھی ہوگئے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ
  • بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
  • امریکا اور جاپان کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا، درآمدی محصولات میں کمی