Nai Baat:
2025-11-04@04:18:02 GMT

ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘

ہم عرصہ دراز سے انقلاب، انقلاب اور انقلاب یا یوں کہہ لیں کہ بچپن سے لے کر آج بڑھاپے کی عمر کو آنے تک کی باتیں سن رہے ہیں۔ آخر یہ انقلاب ہے کس چیز کا نام۔ نہ ہم نے کبھی پاکستان میں انقلاب کا درشن کیا اور نہ انقلاب نے پاکستان کی کبھی راہ دیکھی۔ اکثر سنتے ہیں کہ انقلاب آ گیا، کہاں آ گیا یہ انقلاب ہمیں بھی تو دکھائو، اس انقلاب کی شکل دکھائو۔ کیسی ہوتی ہے۔ اب یہاں دوسرے ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کی بات نہ کر دیں ہم تو کئی عشروں سے یہی سن رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا اب یہ دونوں استحکام لانے میں انہی کی ذمہ داری ہے جو بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور وہی دونوں کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں سسٹم میں اس وقت استحکام کی امید پیدا کی جا سکتی ہے جب تک آپ اس ملک کی 65فیصد یوتھ کو ایجوکیشن یا روزگار کی طرف نہیں لائیں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دور جدید میں نوجوان ہی انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں اور جتنی ایسے انقلابات کی ضرورت آج پاکستان کو ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی کہ انقلاب کی پکار بھی ہمیشہ نوجوانوں ہی سے اٹھتی ہے۔ البتہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا جب فوجی انقلاب برپا ہوتے تھے، اب وہ دور گئے۔ دیکھا جائے تو اگر روز اوّل ہی سے جب ہم آزاد ہوئے تھے اس زمانے سے اگر نوجوانوں کے لئے ایسی پالیسیز بنا دی جاتیں یا ملکی ترقی میں ان کے کردار کو بھی رکھا جاتا تو آج ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام دونوں کبھی خطرے میں نہ پڑتے۔ یہاں کوئی ہے جو میرے ان سوالات کا جواب دے کہ ہماری ہی پاک دھرتی کیوں دہشت گردی کا شکار بنائی گئی اور اس سفاک دہشت گردی کرنے والوں نے 70ہزار بے گناہوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت اور ماحول کس نے بنائے۔ کوئی اس سوال کا جواب تو دے کہ آج پھر اپنی پیاس بجھانے کے لیے مذاکرات کی آڑ میں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا یہ عمل نہ جانے ہمیں کب اور کہاں تک لے جائے؟ ہے کسی کے پاس اس کا جواب کہ ایسے حالات میں ہماری بحیثیت قوم ذمہ داریاں کیا ہیں۔ حکومت وقت گو ان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے مگر ہم کب تک اس سے چھٹکارا پائیں گے؟کب ہماری نسلیں لفظ دہشت گرد کو بھول پائیں گی؟

اکثر حلقوں میں ہم ایسے ہی انقلاب کی باتیں سنتے ہیں کہ وہ آگے آئیں کہ اگر وہ آ جائے تو قوم سدھر جائے گی۔ میرا یہ سوال ایک محب الوطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان نوجوانوں کے ساتھ بھی ہے جو پاکستان میں بہتری ، آسودگی ، معیشت ، سوسائٹی ، اچھے معاشرے اور سسٹم کا انقلاب برپا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کیسے اور کب آگے آئیں گے گو ہمارے نوجوان تو قدم بڑھانے کو تو تیار ہیں مگر ان کی راہنمائی کون کرے گا یہ بات ان کے علم میں نہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی جاننا ہوگی کہ قائداعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ جتنی ناانصافی ہو چکی اس کی بھی ایک حد تھی جو ہم نے اپنی انائوں میں ڈبو دی۔ اب ہماری انہی نوجوان نسلوں کا ایک فرض تو بنتا ہے کہ وہ استحکام اور عزم صمیم کو اپنی فطرت بناتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھیں جس سے کم از کم آنے والی نسلوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ 1947ء میں قائداعظمؒ نے قوم کی تشکیل اور آزادی کی خاطر ہزاروں انسانوں کی قربانیاں صرف آزادی انقلاب کے نام دیں۔ اگر ہمیں صرف معاشی اور سیاسی استحکام ہی کی طرف جانا ہے تو پھر آج کے نوجوانوں کو عمرانڈو سیاست سے نکالنا ضروری ہے کہ اس کے جو غلط ذہن سازی کی جس سے نوجوان تو تباہ ہوا سو ہوا اس سے ہماری نسلیں بری طرح سے متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملکی مسائل میں نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلے تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔
یہ ہم سب کا پاکستان اور اسے انہی نوجوان نسلوں نے بچانا ہے اسی کے لئے ہم کئی عشروں سے لڑ رہے ہیں مگر بے سود کہ ہمیں اچھی لیڈرشپ ہی نہیں ملی۔ انقلاب، قتل و غارت اور آتش زنی یا سفاکانہ مہم کا نام نہیں۔ یہ اِدھر اُدھر چند بم پھینکنے ، گولیاں چلانے نیز 9مئی کی طرح تہذیبی اور عسکری نشانیوں کو تباہ کرنے اور مساوات اور انصاف کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نام نہیں، قوموں میں آنے والے انقلاب مایوسی کا فلسفہ، نہ مایوس کن لوگوں کا عقیدہ۔ انقلاب ’’خدا شکن تو ہو سکتا ہے انسان شکن نہیں، ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی انقلاب کے بغیر اتحاد ہم آہنگی اور توازن کا وجود ممکن نہیں ہوتا پھر بقول ارسطو انقلاب قانون ہے، انقلاب تربیت ہے۔ انقلاب سچائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم آج ہماری قوم کے نو جوانوں کو اس حقیقت کا احساس ہو چکا ہے کہ آنے والا کل انہی نوجوان نسلوں کا ہے اور نوجوان غیر ذمہ دار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان سے زیادہ بہتر اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں۔ ان کے لئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ہمارے سرگرم اور طاقتور نظریات ہی ہمیں بہت آگے لے جانے اور بڑی قوم بنانے کے لئے کافی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انقلاب کی کے ساتھ ہیں اور ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے: محمد اورنگزیب
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان