یوم سیاہ، :آزاد کشمیر بھر میں بھارت مخالف مظاہرے، ریلیاں
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
شرکاء نے جموں و کشمیر پر بھارت کے مسلسل غیر قانونی قبضے اور نہتے کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے وحشیانہ مظالم کی مذمت کی۔ مظفرآباد میں مقبوضہ جموں کشمیر کے مہاجرین اور جموں کشمیر لبریشن سیل کی جانب سے ایک زبردست ریلی نکالی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی یوم جمہوریہ کو ”یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کیلئے آزاد جموں و کشمیر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرے کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق ہزاروں شہریوں نے سیاہ جھنڈوں کے ساتھ سڑکوں پر مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔ شرکاء نے جموں و کشمیر پر بھارت کے مسلسل غیر قانونی قبضے اور نہتے کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے وحشیانہ مظالم کی مذمت کی۔ مظفرآباد میں مقبوضہ جموں کشمیر کے مہاجرین اور جموں کشمیر لبریشن سیل کی جانب سے ایک زبردست ریلی نکالی گئی جس کی قیادت اسپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر نے کی۔ مظاہرین نے شہید برہان وانی چوک سے مارچ کیا، بھارتی قبضے کے خلاف نعرے لگائے اور کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔
ریلی میں وزیر آزاد جموں کشمیر حکومت کوثر تقدیس گیلانی، کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان، چیئرمین پاسبان حریت عزیر احمد غزالی، راجہ محمد اسلم خان، راجہ محمد آفتاب خان، پیپلز پارٹی کے رہنما شوکت جاوید میر، مشتاق اسلام، چوہدری محمد شاہین سمیت متعدد سیاسی و مذہبی رہنماوں نے شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ کشمیری بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر دنیا بھر میں احتجاج کر رہے ہیں تاکہ عالمی برادری کو باور کر سکیں کہ بھارت جموں و کشمیر پر مسلسل غیر قانونی طور پر قابض اور کشمیریوں سے حق خودارادیت سے محروم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جمہوری نہیں بلکہ ایک دہشت گرد ریاست ہے جو معصوم کشمیریوں کا بے دریغ خون بہا رہا ہے۔احتجاجی ریلی میں پاک کشمیر یکجہتی فورم کے وفد نے ضمیر احمد ناز، یاسین خان اور بختیار خان کی قیادت میں بھی شرکت کی۔
دریں اثنا آزاد جموں و کشمیر کے شہر میرپور میں بھی مہاجر اتحاد فورم اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مشترکہ طور پر یوم سیاہ کی ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پرکل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سابق کنوینر محمود احمد ساغر، قاضی محمد عمران، ملک اسلم، بشیر احمد شگو، عمر طارق اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مقبوضہ علاقے میں اپنا یوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مظلوم کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور آئے روز بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام سے کیے گئے حق خودارادیت کے وعدے کو پورا کرے اور انہیں منصفانہ اور شفاف استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرے۔راولاکوٹ، باغ اور بھمبر سمیت آزاد جموں و کشمیر کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی چیرہ دستیوں کا نوٹس لے اور کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانے کیلئے بھارت پر دباﺅ ڈالے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے پر بھارت کہ بھارت کہا کہ
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔