اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2025 )قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی توانائی کی درآمدات پر پاکستان کے انحصار کو نمایاں طور پر کم کرنے، تجارتی توازن کو بہتر بنانے اور طویل مدتی اقتصادی استحکام کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو احد نذیر نے کہا کہ پاکستان کے معاشی منظر نامے نے لچک، عزائم اور جاری چیلنجز کا ایک پیچیدہ تعامل پیش کیا ہے ملک کو توانائی کی درآمدات، خاص طور پر تیل اور مائع قدرتی گیس پر بھاری انحصار کی وجہ سے اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے جو کافی تجارتی خسارے میں حصہ ڈالتے ہیں.

(جاری ہے)

انہوں نے ملک کی اقتصادی منصوبہ بندی میں توانائی کی درآمدات کی اہم نوعیت پر روشنی ڈالی غیر مستحکم عالمی منڈیوں کی وجہ سے درآمدی ایندھن پر انحصار بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے 2024 میں توانائی کی درآمدات ایک اہم بوجھ بنی ہوئی ہیںجو شرح مبادلہ کے اتار چڑھاو اور افراط زر کے دبا وسے مزید پیچیدہ ہیں جو ایندھن اور صنعتی مشینری کے درآمدی بل پر دباو ڈالتے ہیں ان چیلنجوں کے باوجودقابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی طرف ایک امید افزا تبدیلی ہے جو مہنگی درآمدات پر انحصار کم کر سکتی ہے اور نئے اقتصادی مواقع پیدا کر سکتی ہے.

انہوں نے پاکستان کی قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی خاطر خواہ صلاحیت کو اجاگر کیا اور کہاکہ سندھ اور بلوچستان جیسے علاقوں میں پائے جانے والے شمسی اور ہوا کے وسائل میں ان وسائل کو بروئے کار لا کر پاکستان درآمدات پر اپنا انحصار کم کر سکتا ہے سولر پینل کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ جسے مقامی مینوفیکچررز اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل ہے ملک کے لیے ایک گیم چینجر کے طور پر شمسی توانائی کی حیثیت رکھتی ہے برآں، جھمپیر میں 50 میگاواٹ ونڈ فارم جیسے موجودہ منصوبے بڑے پیمانے پر ہوا سے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں.

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ترقیاتی معاشی محقق ڈاکٹر انور شاہ نے کہا کہ شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ درآمدی تیل اور قدرتی گیس کی طلب میں نمایاں کمی کرے گاجو ملک کی تجارت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یہ تبدیلی مالی دبا وکو کم کر سکتی ہے اور غیر ملکی کرنسی کے اخراج کو کم کر کے غیر مستحکم شرح مبادلہ کو مستحکم کر سکتی ہے انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ قابل تجدید توانائی توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں خامیوںکا ایک طویل مدتی حل پیش کرتی ہے.

انہوں نے کہاکہ بجلی کی بار بار بندش اور گھریلو طلب پوری نہ کر پانے نے پاور گرڈ کو متاثر کیا ہے گرڈ کو جدید بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سبز توانائی میں سرمایہ کاری قابل اعتماد کو بڑھا سکتی ہے، صنعتی پیداوار کو بڑھا سکتی ہے اور کاروباری لاگت کو کم کر سکتی ہے اس سے پاکستان عالمی منڈیوں میں خاص طور پر ٹیکسٹائل، آئی ٹی سروسز اور زراعت جیسے شعبوں میں زیادہ مثر طریقے سے مقابلہ کر سکے گا.

انہوںنے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے لیے ملک کا زور روایتی ٹیکسٹائل سے آگے اپنی برآمدی بنیاد کو متنوع بنا سکتا ہے قابل تجدید ٹیکنالوجیز جیسے سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز کی گھریلو پیداوار کو فروغ دے کرملک علاقائی اور عالمی منڈیوں دونوں میں سبز توانائی کے حل کے برآمد کنندہ کے طور پر اپنی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قابل تجدید توانائی توانائی کی درآمدات کم کر سکتی ہے توانائی کے

پڑھیں:

سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک

کراچی:

حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی معیشت کوقلیل مدتی طور پر متاثرکیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتارسست ہو سکتی ہے،جبکہ افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک نے پالیسی شرح سود کو 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باوجود پاکستان کی معیشت گزشتہ بڑے سیلابوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مضبوط ہے۔

قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اورکرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال مستحکم رہی ہے۔ علاوہ ازیں امریکاکی جانب سے درآمدی محصولات میں ترمیم نے عالمی تجارتی بے یقینی میں کمی لائی ہے، جو پاکستان کیلیے  مثبت پیش رفت ہے۔

سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق خریف کی فصل کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے تجارتی خسارے میں اضافے کاامکان ظاہرکیاجا رہا ہے۔

اگرچہ امریکاسے بہتر مارکیٹ رسائی کی بدولت اس نقصان کاکچھ حد تک ازالہ متوقع ہے،تاہم زرعی اور صنعتی شعبوں کے ساتھ ساتھ خدمات کا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ مالی سال 26-2025 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.25 فیصد سے 4.25 فیصدکی نچلی حدکے قریب رہنے کاامکان ہے۔

اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصدکے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سیلاب کے بعد ترسیلات زر میں اضافے کی امیدکی جا رہی ہے،جبکہ منصوبے کے مطابق اگر سرکاری آمدن مقررہ وقت پر موصول ہوگئی تو دسمبر 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

حکومتی اخراجات میں اضافے اور محصولات میں ممکنہ سست روی کے باعث مالی گنجائش محدود ہونے کاخدشہ ہے۔

اسٹیٹ بینک نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینااور خسارے میں چلنے والے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

دوسری جانب، سیلاب کے باوجود نجی شعبے میں قرضوں کی طلب میں موجودہ رفتار برقرار رہنے کی توقع ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ جولائی 2025 میں افراط زر 4.1 فیصد جبکہ اگست میں 3 فیصد رہی، تاہم سیلاب کے بعدخوراک کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی میں اضافہ ہوگیاہے،رواں مالی سال میں مہنگائی 5 سے 7 فیصدکے ہدف سے تجاوزکر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو، جسٹس محسن اختر کیانی
  • امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • ایشیا کپ: پی سی بی اور آئی سی سی میں ڈیڈ لاک ختم، قومی ٹیم اسٹیڈیم روانہ
  • سیاست کو کھیلوں سے الگ رکھنا ضروری ہے، محمد فیصل
  • آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
  • ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر کتنے ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے؟
  • کامن ویلتھ کی الیکشن رپورٹ نے بھی انتخابی دھاندلی کا پول کھول دیا. عمران خان
  • کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک