سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس سننے سے معذرت
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی ) سپریم آف پاکستان کی جج جسٹس عائشہ ملک نے کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 221 اے کی آئینی حیثیت کے بارے میں کیس سننے سے معذرت کرلی۔کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 221 اے کی آئینی حیثیت کے بارے میں آئینی بینچ میں اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک کا کیس سننے سے معذرت کرلی، انہوں نے کہا کہ میں کیس نہیں سن سکتی، اس کی الگ سے وجوہات دونگی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس ایک ہفتے کیلئے ملتوی کریں، وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اس معاملے میں کافی تنازع ہے، اختیارات سے متعلق ایک آرڈر بھی آیا ہے، دیوان موٹرز کیس جلد سنا جائے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم کل ہی اس کیس کو سن لیتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ میں کیس سے الگ ہونے کی الگ وجوہات دونگی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی وجوہات دے دیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔