اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پی ٹی آئی  بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ کل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے، اس حوالے سے باضابطہ آگاہ بھی کردیا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ یہ حکومت والے (پیکا ایکٹ) کے تحت جس کو بھی چاہے فیک نیوز کے زمرے میں اٹھا لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے جائز حقوق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج اسی کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج اگر قانون پاس بھی ہو گیا تو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ کرم کے مسئلے پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے ہم نے  7 دن کا وقت دیا تھا۔ ہم حکومت کے ساتھ کل کی میٹنگ میں نہیں بیٹھیں گے ، سیکرٹری سپیکر کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ اسد قیصر نے کہا کہ حکومت جو قوانین لا رہی ہے وہ بنیادی طور پر سول مارشل لا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیکا ایکٹ میں ترامیم کے بل کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اس کے خلاف ملک گیر تحریک میں شامل ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ کل میٹنگ میں نہیں آئے تو سپیکر کمیٹی تحلیل کر دیں گے۔ اپنے بیان میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی والے مذاکرات کو چوک چوراہوں پر لے آئے ہیں‘ نہیں معلوم کہ پی ٹی آئی کل کے اجلاس میں شرکت کرے گی یا نہیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ جب یہ عمل ختم ہو جائے گا تو پھر ہماری کمیٹی بھی تحلیل ہو جائے گی۔ اگر مذاکرات جاری نہیں رہنے تو پھر مذاکراتی کمیٹی کیا کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پی ٹی آئی والے جو کچھ باہر کریں گے اس کا رسپانس حکومت دے گی۔ تین اجلاسوں میں ایک بار بھی نہیں کہا کہ 7 دن کے اندر مطالبات نے مانے تو الگ ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں رابطے اور مذاکرات جمہوریت کی روح ہیں، ان رابطوں سے ملک اور قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملتی ہے، مذاکرات سے گریز غیر جمہوری رویہ ہے جس سے کشیدگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور قومی یکجہتی کی فضا کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو ہنگاموں، محاذ رائی اور تصادم کی نہیں، مفاہمت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے تا کہ قومی معیشت کی تعمیر اور دہشت گردی کے خاتمے جیسے مسائل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔ سینیٹر عرفان صدیقی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ملک ترقی کر رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کے وقار میں اضافہ ہو رہا ہے، ہم کسی کو اس امر کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ غیر جمہوری رویوں سے تعمیر و ترقی کے اس عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالے۔ حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹیوں کا چوتھا دور  آج (منگل کو) پارلیمنٹ ہائوس میں  ہوگا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی  ایاز صادق کریں گے۔ ذرائع کے مطابق  پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر حکومتی کمیٹی تحریری جواب سپیکر کو جمع کرا دے گی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: عرفان صدیقی پی ٹی آئی نے کہا کہ

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کی ن لیگ میں شمولیت
  • سینٹ نے پارلیمنٹیرنزکو حکومتی افسران اورآئینی اداروں کے سربرہان سے کم درجہ ملنے کے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کردیا
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • ( 9 مئی مقدمات) تحریک انصاف کا تمام سزاؤں کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • ’’تحریک انصاف میں علیمہ خانم سے بڑا کوئی غدار نہیں‘‘
  • پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26معطل ارکان بحال : قائم مقام سپیکر کے حکم کے بعد نوٹیفکیسن جاری 
  • 5 اگست کو مینار پاکستان جلسہ، اب مذاکرات نہیں تحریک چلے گی: بیرسٹر گوہر