علی حیدر کو معین اختر کے ہاتھ سے پہلے کنسرٹ کا کتنا معاوضہ ملا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
پاکستان میوزک انڈسٹری کے معروف گلوکار علی حیدر نے اپنے کیریئر کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کی ہے۔
علی حیدر نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں بطور مہمان شرکت کی جہاں اُنہوں نے اپنی نجی زندگی اور میوزک کیریئر کے بارے میں گفتگو کی۔
شو کے دوران میزبان تابش ہاشمی نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ کو ماضی میں کوئی 1 مہینے کی پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، اس کی وجہ کیا تھی؟
View this post on InstagramA post shared by Hasna Mana Hai (@geohasnamanahai)
گلوکار نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ میں، جنید جمشید اور سجاد علی، ہم تینوں کے اس وقت ریلیز ہونے والے نئے گانے بہت مقبول ہوئے تھے تو ہم نے سوچا کہ یہ میوزک لیبل والے ہمارے گانوں سے اتنے پیسے کماتے ہیں مگر ہمیں نہیں دیتے تو اس معاملے پر ہم تینوں نے سجاد علی کے گھر کی چھت پر ایک میٹنگ کی اور اس کے بعد اپنا معاوضہ 3 گنا بڑھا دیا۔
اُنہوں نے بتایا کہ جب ہم نے اپنا معاوضہ بڑھا دیا تو اگلے 6 ماہ تک ہمیں کوئی کام ہی نہیں ملا۔
علی حیدر نے کہا کہ وہ بہت مشکل دور تھا، انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑتی تھی، اس دور کو یاد رکھا جانا چاہیے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے دور میں لوگ ہم سے ملتے تھے تو پوچھتے تھے کہ ٹھیک ہے آپ کے گانے تو بہت مقبول ہیں مگر آپ کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے؟ لیکن اب اس طرح کے سوالات میں کمی آ گئی ہے۔
گلوکار نے بتایا کہ مجھے کیریئر کے آغاز میں بہت سارے کنسرٹ کرنے کا تو کوئی معاوضہ ملا ہی نہیں تھا لیکن کنسرٹ کرنے پر زندگی میں جو سب سے پہلا چیک ملا تھا وہ میرے لیے بہت یادگار ہے کیونکہ وہ 10 ہزار روپے کا چیک مجھے معین اختر صاحب نے دیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
غزہ کی بدنصیب مائیں رات بھر جاگ کر بس یہ دیکھتی رہتی ہیں کہ ان کے غذائی قلت کے شکار بچے سانس لے بھی رہے ہیں یا نہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے نمائندوں نے غزہ میں ان بے چین اور مضطرب ماؤں سے ملاقاتیں کیں جن کے جگر گوشے بھوک سے موت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی غزہ پر جاری مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث لاکھوں فلسطینی مہلک فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔
بچے کثیر تعداد غذائی قلت کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ایسے بچوں کی تعداد 300 سے زائد ہیں جب کہ 9 لاکھ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے CNN کے نمائندوں کو ایک ماں نے بتایا کہ اسپتال کے صرف اس کمرے میں 4 بچے غذائی قلت سے مر چکے ہیں۔
غم زدہ ماں نے خوف کے عالم میں کپکپاتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میری بیٹی پانچویں ہوگی جس کا وزن دائمی اسہال کے باعث صرف 3 کلوگرام رہ گیا ہے۔
بےکس و لاچار ماں نے بتایا کہ میں خود کمزور ہوں اور اپنی ننھی پری کو دودھ پلانے سے قاصر ہوں۔ رات میں چار یا پانچ بار اُٹھ کر دیکھتی ہوں، بیٹی کی سانسیں چل رہی ہیں یا وہ مجھے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ گئی۔
غزہ میں کئی ماؤں نے سی این این کو بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کافی دودھ نہیں مل رہا ہے۔ فارمولا دودھ دستیاب نہیں۔ لوگ چائے یا پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور ماں ہدایہ المتواق نے اپنے 3 سالہ بیٹے محمد کو غزہ شہر کے العہلی العربی ہسپتال کے قریب ایک خیمے کے اندر پالا ہے۔
جس کا وزن اب صرف 6 کلوگرام (تقریباً 13 پاؤنڈ) ہے جو چند ماہ قبل 9 کلوگرام تھا۔
جبر کی ماری ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا 3 سالہ بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر کھانا ہے تو ہم کھاتے ہیں اگر نہیں تو اللہ پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی کچھ نہیں۔
سی این این کے نمائندوں نے بتایا کہ غزہ کے پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں کے ہر کمرے میں یہی منظر ہے۔ بچوں کی آنکھیں دھنسی ہوئی اور پسلیاں نکلی ہوئی ہیں۔