Islam Times:
2025-11-03@08:09:57 GMT

امریکہ کو اے آئی کے میدان میں بڑا جھٹکا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

امریکہ کو اے آئی کے میدان میں بڑا جھٹکا

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کو صدر بننے کے بعد پہلے ہی ہفتے چین نے سلامی دی ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھ رہا تھا کہ ٹیکنالوجی کا مرکز ہمارے پاس ہے، ہر کوئی ہمارا محتاج ہے اور ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چینیوں نے بتا دیا کہ ہم بھی موجود ہیں۔ امریکہ کو ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ ہر چیز کا حل پابندیوں میں ڈھونڈ رہا ہے۔امریکہ کا پابندیاں لگانا جہاں کئی مسائل لے کر آتا ہے، وہاں ہر قوم اپنے وسائل کو چیزیں درآمد کرنے کی جگہ چیزیں بنانے پر صرف کرتی ہے۔ اس میں مشکلات ضرور ہیں، مگر اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یہ دنیا ڈیٹا کی دنیا ہے اور آج کی جنگ کا میدان تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکی صدر نے جب سے آفس سنبھالا ہے، ساری سرگرمیوں کا مرکز ایک ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی کا مرکز امریکہ کو بنانا ہے۔ کسی بھی صورت میں ٹیکنالوجی کے مرکز کو چائنہ منتقل نہیں ہونے دینا۔ ہر کسی کو دباو میں لایا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ میں انویسٹ کرے، حد یہ ہے کہ مودی کو بھی فون کرکے کمانڈ دی گئی ہے کہ تم ہم سے بہت کما رہے ہو، اب ذرا ہمیں بھی موقع دو اور یہاں انویسٹ کرو۔ نا ہے جلد مودی صاحب گلو خلاصی کرانے اور حاضری دینے امریکہ جا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے امریکی صدر اعلان کر رہے تھے کہ ہم اے آئی میں پانچ سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔سیلی کون ویلی ہی دنیا میں ٹیکنالوجی کا مرکز رہے گی۔ امریکی چائنیز کو ٹیکنالوجی کا چور کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری ٹیکنالوجی کو کاپی کرتے ہیں اور دنیا میں کاپی رائٹس کے سادہ قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

کوئی چیز ان کی انوویشن نہیں ہے بلکہ سب کچھ ریورس انجئنرنگ کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ نقل مارتے ہیں، بے تحاشہ پروڈکشن کے ذریعے مارکیٹ پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اہل چین نے بہرحال امریکہ کو کافی عرصے سے ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔ ٹک ٹاک نے امریکہ میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے، جب امریکی اداروں کو احساس ہوا کہ جو کچھ ہم دنیا کے ساتھ کرتے ہیں، کہیں وہی چائنیز ہمارے ساتھ نہ کر رہے ہوں۔ اس لیے ٹک ٹاک کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور اس کو چینی حکومت کے ایک ادارے کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔ امریکہ نے ٹک ٹاک پر پابندی کی وجوہات بڑی اہم بتائی ہیں، انہیں جاننا بہت اہم ہے۔ چینی کمپنی بائٹ ڈانس کے ذریعے جمع کیا جانے والا صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھوں جاسوسی کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے، جس سے قومی سکیورٹی کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

امریکہ کو تشویش ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کی ذاتی معلومات، جیسے لوکیشن اور براؤزنگ ہسٹری، چین کے سرورز تک منتقل ہوسکتی ہیں، جس سے چین کو امریکی حکومت، فوجی اہلکاروں اور حساس اداروں کی معلومات تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایپ پر پروپیگنڈے اور سیاسی اثرات ڈالنے کے امکانات بھی ہیں، جو امریکہ کی داخلی سیاست اور عوامی رائے کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ٹک ٹاک میں سکیورٹی کی کمزوریوں اور ممکنہ سائبر حملوں کا بھی خدشہ ہے اور یہ امریکی کمپنیوں کے مفادات کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ذرا ان وجوہات پر غور کریں، کیا  امریکی ایپس یہی کام نہیں کرسکتیں؟ کیا اس کے بعد دوسرے ممالک امریکی کمپنیوں کو یہی کہہ کر بند نہیں کرسکتے؟ جیسے فیس بک، گوگل، ٹویٹر اور دیگر کمپنیاں یہی کچھ کر رہی ہیں۔

قارئیں کرام ڈیٹا تک رسائی سے سیاسی اور فوجی ہر طرح کے نتائج لیے جا رہے ہیں۔ 2016ء کے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس نے امریکی نظام کو کافی بڑا دھچکا دیا تھا۔ امریکی حکومت کے ادارے NSA (نیشنل سکیورٹی ایجنسی) جیسے ادارے ایپس کے ذریعے دنیا بھر میں نگرانی اور جاسوسی کرتے ہیں، جیسے ایڈورڈ سنوڈن کی افشا کردہ دستاویزات میں ذکر کیا گیا۔ امریکی ایپس میں صارفین کی معلومات حکومت کے ساتھ شیئر کرتی ہیں، خاص طور پر جب امریکی سکیورٹی کی بات آتی ہے، جو آزاد ممالک کے لیے تشویش کا باعث  ہے۔ امریکی ایپس کے ذریعے دوسرے ممالک کے صارفین کا ڈیٹا امریکہ کے سرورز میں منتقل کیا جا تا ہے، جس سے پرائیویسی اور سکیورٹی خطرے میں ہے۔ اہل غزہ کی مزاحمت کی کامیابی کی بڑی وجہ ان ڈیوائسسز اور ایپس سے دور رہنا ہے۔

امریکہ نے چائنہ کو جدید چپس کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے، کمپنی نے ذرا سستی چپس بنائیں کہ چین کو برآمد کرسکے تو ان پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔پچھلے 48 گھنٹوں میں امریکی سٹاک ایکسچینج میں گویا خون بکھرا پڑا ہے.

Nvidia کے حصص ایک دن میں 600 ارب ڈالرز سے زیادہ کے گرے ہیں (پاکستان کا سارا قرض 150 ارب ڈالرز سے کم ہے)، اوورآل بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈیڑھ ٹرلین ڈالرز صاف ہوگیا ہے۔ پچھلے دس دن میں چینیوں نے امریکیوں کے اور OpenAI کے کھربوں ڈالرز کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ انہوں نے ChatGPT جیسے طاقتور AI ماڈل کو صرف 1/100 لاگت میں تیار کر لیا ہے۔ یہ کسی فلم میں دکھایا جانا والا سین نہیں ہے بلکہ امریکہ میں ٹیک کمپینوں کے گڑھ سلیکون ویلی نے ڈیپ سیک۔V3 اور ڈیپ سیک۔ R1 کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اوپن اے آئی اور میٹا کے جدید ترین ماڈلز کے مساوی قرار دیا ہے۔

چینی کمپنی نے گذشتہ مہینے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈیب سیک۔V3 کی تربیت پر اخراجات کا تخمینہ 60 لاکھ ڈالر سے بھی کم ہے۔ V3 ڈیپ سیک میں استعمال ہونے والی کمپیوٹر کی جدید زبان ہے، جو کم طاقت کے کمپیوٹر پر مصنوعی ذہانت کا پروگرام چلا سکتی ہے۔ جبکہ اس کی کارکردگی مصنوعی ذہانت کے جدید امریکی ماڈلز کے مساوی یا بہتر ہے۔ اس کا سب سے بڑا دھچکا تو اسی چپ بنانے والی کمپنی این ویڈیا کو لگا آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبے میں استعمال ہونے والی چپ بنانے والی اہم کمپنی این ویڈیا کے حصص میں 18 فی صد تک کمی ہوئی۔ چینی شہر ہانگ جو میں قائم ایک اسٹارپ اپ کمپنی ہے، جس کے زیادہ شیئرز لیانگ وین فانگ کے پاس ہیں۔ وہ ٹیک کے شعبے کے ایک بڑے سرمایہ کار ہیں۔ انہوں نے 2023ء میں اپنے مالی وسائل مصنوعی ذہانت کے شعبے پر صرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی کمپنی کے پاس دس ہزار این ویڈیا H100 مائیکرو چپ موجود ہیں۔

ٹرمپ کو صدر بننے کے بعد پہلے ہی ہفتے چین نے سلامی دی ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھ رہا تھا کہ ٹیکنالوجی کا مرکز ہمارے پاس ہے، ہر کوئی ہمارا محتاج ہے اور ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چینیوں نے بتا دیا کہ ہم بھی موجود ہیں۔ امریکہ کو ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ ہر چیز کا حل پابندیوں میں ڈھونڈ رہا ہے۔امریکہ کا پابندیاں لگانا جہاں کئی مسائل لے کر آتا ہے، وہاں ہر قوم اپنے وسائل کو چیزیں درآمد کرنے کی جگہ چیزیں بنانے پر صرف کرتی ہے۔ اس میں مشکلات ضرور ہیں، مگر اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ امریکہ نے چپس پر پابندی لگائی کہ چین مصنوئی ذہانت کے میدان میں آگے نہ بڑھ جائے۔ چینیوں نے ایسا جھٹکا دیا کہ امریکی ٹیکنالوجی ہی زیر سوال چلی گئی اور اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ ڈیپ سیک انسٹال کی جا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ کمپنی کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ہتھ ھولا رکھیں، آہستہ آہستہ ڈاون لوڈ کریں، کیوں کچھ شرپسند جن کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں اور جن کی اجارہ داری خطرے میں ہے، وہ ایپ پر حملے کر رہے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کا مرکز امریکہ میں امریکہ کو چینیوں نے کے ذریعے حکومت کے رہے ہیں ڈیپ سیک نہیں ہے رہا ہے ہے اور ٹک ٹاک تھا کہ

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • وینیزویلا پر حملہ کر کے مجھے اقتدار دیں، نوبل امن انعام یافتہ خاتون کی امریکہ کو دعوت
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • آئی سی سی اجلاس میں میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، محسن نقوی
  • مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
  • ایم ڈی کیٹ رزلٹ میں کراچی کے طلبہ نے میدان مار لیا، 41 بچے ٹاپ 10 میں شامل
  • ایم ڈی کیٹ 2025: کراچی کے طلبہ نے میدان مار لیا، پہلی تینوں پوزیشنز کراچی کے نام
  • جاپان میں ریچھوں کے بڑھتے حملے:حکومت نے شکاریوں کو میدان میں اتار دیا