امریکہ کو اے آئی کے میدان میں بڑا جھٹکا
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کو صدر بننے کے بعد پہلے ہی ہفتے چین نے سلامی دی ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھ رہا تھا کہ ٹیکنالوجی کا مرکز ہمارے پاس ہے، ہر کوئی ہمارا محتاج ہے اور ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چینیوں نے بتا دیا کہ ہم بھی موجود ہیں۔ امریکہ کو ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ ہر چیز کا حل پابندیوں میں ڈھونڈ رہا ہے۔امریکہ کا پابندیاں لگانا جہاں کئی مسائل لے کر آتا ہے، وہاں ہر قوم اپنے وسائل کو چیزیں درآمد کرنے کی جگہ چیزیں بنانے پر صرف کرتی ہے۔ اس میں مشکلات ضرور ہیں، مگر اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
یہ دنیا ڈیٹا کی دنیا ہے اور آج کی جنگ کا میدان تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکی صدر نے جب سے آفس سنبھالا ہے، ساری سرگرمیوں کا مرکز ایک ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی کا مرکز امریکہ کو بنانا ہے۔ کسی بھی صورت میں ٹیکنالوجی کے مرکز کو چائنہ منتقل نہیں ہونے دینا۔ ہر کسی کو دباو میں لایا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ میں انویسٹ کرے، حد یہ ہے کہ مودی کو بھی فون کرکے کمانڈ دی گئی ہے کہ تم ہم سے بہت کما رہے ہو، اب ذرا ہمیں بھی موقع دو اور یہاں انویسٹ کرو۔ نا ہے جلد مودی صاحب گلو خلاصی کرانے اور حاضری دینے امریکہ جا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے امریکی صدر اعلان کر رہے تھے کہ ہم اے آئی میں پانچ سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔سیلی کون ویلی ہی دنیا میں ٹیکنالوجی کا مرکز رہے گی۔ امریکی چائنیز کو ٹیکنالوجی کا چور کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری ٹیکنالوجی کو کاپی کرتے ہیں اور دنیا میں کاپی رائٹس کے سادہ قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
کوئی چیز ان کی انوویشن نہیں ہے بلکہ سب کچھ ریورس انجئنرنگ کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ نقل مارتے ہیں، بے تحاشہ پروڈکشن کے ذریعے مارکیٹ پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اہل چین نے بہرحال امریکہ کو کافی عرصے سے ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔ ٹک ٹاک نے امریکہ میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے، جب امریکی اداروں کو احساس ہوا کہ جو کچھ ہم دنیا کے ساتھ کرتے ہیں، کہیں وہی چائنیز ہمارے ساتھ نہ کر رہے ہوں۔ اس لیے ٹک ٹاک کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور اس کو چینی حکومت کے ایک ادارے کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔ امریکہ نے ٹک ٹاک پر پابندی کی وجوہات بڑی اہم بتائی ہیں، انہیں جاننا بہت اہم ہے۔ چینی کمپنی بائٹ ڈانس کے ذریعے جمع کیا جانے والا صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھوں جاسوسی کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے، جس سے قومی سکیورٹی کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
امریکہ کو تشویش ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کی ذاتی معلومات، جیسے لوکیشن اور براؤزنگ ہسٹری، چین کے سرورز تک منتقل ہوسکتی ہیں، جس سے چین کو امریکی حکومت، فوجی اہلکاروں اور حساس اداروں کی معلومات تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایپ پر پروپیگنڈے اور سیاسی اثرات ڈالنے کے امکانات بھی ہیں، جو امریکہ کی داخلی سیاست اور عوامی رائے کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ٹک ٹاک میں سکیورٹی کی کمزوریوں اور ممکنہ سائبر حملوں کا بھی خدشہ ہے اور یہ امریکی کمپنیوں کے مفادات کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ذرا ان وجوہات پر غور کریں، کیا امریکی ایپس یہی کام نہیں کرسکتیں؟ کیا اس کے بعد دوسرے ممالک امریکی کمپنیوں کو یہی کہہ کر بند نہیں کرسکتے؟ جیسے فیس بک، گوگل، ٹویٹر اور دیگر کمپنیاں یہی کچھ کر رہی ہیں۔
قارئیں کرام ڈیٹا تک رسائی سے سیاسی اور فوجی ہر طرح کے نتائج لیے جا رہے ہیں۔ 2016ء کے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس نے امریکی نظام کو کافی بڑا دھچکا دیا تھا۔ امریکی حکومت کے ادارے NSA (نیشنل سکیورٹی ایجنسی) جیسے ادارے ایپس کے ذریعے دنیا بھر میں نگرانی اور جاسوسی کرتے ہیں، جیسے ایڈورڈ سنوڈن کی افشا کردہ دستاویزات میں ذکر کیا گیا۔ امریکی ایپس میں صارفین کی معلومات حکومت کے ساتھ شیئر کرتی ہیں، خاص طور پر جب امریکی سکیورٹی کی بات آتی ہے، جو آزاد ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ امریکی ایپس کے ذریعے دوسرے ممالک کے صارفین کا ڈیٹا امریکہ کے سرورز میں منتقل کیا جا تا ہے، جس سے پرائیویسی اور سکیورٹی خطرے میں ہے۔ اہل غزہ کی مزاحمت کی کامیابی کی بڑی وجہ ان ڈیوائسسز اور ایپس سے دور رہنا ہے۔
امریکہ نے چائنہ کو جدید چپس کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے، کمپنی نے ذرا سستی چپس بنائیں کہ چین کو برآمد کرسکے تو ان پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔پچھلے 48 گھنٹوں میں امریکی سٹاک ایکسچینج میں گویا خون بکھرا پڑا ہے.
چینی کمپنی نے گذشتہ مہینے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈیب سیک۔V3 کی تربیت پر اخراجات کا تخمینہ 60 لاکھ ڈالر سے بھی کم ہے۔ V3 ڈیپ سیک میں استعمال ہونے والی کمپیوٹر کی جدید زبان ہے، جو کم طاقت کے کمپیوٹر پر مصنوعی ذہانت کا پروگرام چلا سکتی ہے۔ جبکہ اس کی کارکردگی مصنوعی ذہانت کے جدید امریکی ماڈلز کے مساوی یا بہتر ہے۔ اس کا سب سے بڑا دھچکا تو اسی چپ بنانے والی کمپنی این ویڈیا کو لگا آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبے میں استعمال ہونے والی چپ بنانے والی اہم کمپنی این ویڈیا کے حصص میں 18 فی صد تک کمی ہوئی۔ چینی شہر ہانگ جو میں قائم ایک اسٹارپ اپ کمپنی ہے، جس کے زیادہ شیئرز لیانگ وین فانگ کے پاس ہیں۔ وہ ٹیک کے شعبے کے ایک بڑے سرمایہ کار ہیں۔ انہوں نے 2023ء میں اپنے مالی وسائل مصنوعی ذہانت کے شعبے پر صرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی کمپنی کے پاس دس ہزار این ویڈیا H100 مائیکرو چپ موجود ہیں۔
ٹرمپ کو صدر بننے کے بعد پہلے ہی ہفتے چین نے سلامی دی ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھ رہا تھا کہ ٹیکنالوجی کا مرکز ہمارے پاس ہے، ہر کوئی ہمارا محتاج ہے اور ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چینیوں نے بتا دیا کہ ہم بھی موجود ہیں۔ امریکہ کو ایک بات سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ ہر چیز کا حل پابندیوں میں ڈھونڈ رہا ہے۔امریکہ کا پابندیاں لگانا جہاں کئی مسائل لے کر آتا ہے، وہاں ہر قوم اپنے وسائل کو چیزیں درآمد کرنے کی جگہ چیزیں بنانے پر صرف کرتی ہے۔ اس میں مشکلات ضرور ہیں، مگر اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ امریکہ نے چپس پر پابندی لگائی کہ چین مصنوئی ذہانت کے میدان میں آگے نہ بڑھ جائے۔ چینیوں نے ایسا جھٹکا دیا کہ امریکی ٹیکنالوجی ہی زیر سوال چلی گئی اور اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ ڈیپ سیک انسٹال کی جا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ کمپنی کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ہتھ ھولا رکھیں، آہستہ آہستہ ڈاون لوڈ کریں، کیوں کچھ شرپسند جن کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں اور جن کی اجارہ داری خطرے میں ہے، وہ ایپ پر حملے کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کا مرکز امریکہ میں امریکہ کو چینیوں نے کے ذریعے حکومت کے رہے ہیں ڈیپ سیک نہیں ہے رہا ہے ہے اور ٹک ٹاک تھا کہ
پڑھیں:
پولیس کا اصل امتحان میدانِ عمل میں ہوگا، عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے:وزیراعظم
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کا اصل امتحان میدانِ عمل میں ہوگا جہاں انہیں عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے۔وزیراعظم نے نیشنل پولیس اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے پولیس اصلاحات، تربیت اور سہولیات کی فراہمی سے متعلق اہم اعلانات کیے، فائرنگ رینج اور ہاسٹل کی تعمیرکے منصوبوں کا سنگ بنیادرکھا، ماسٹرز ڈگری کے اجرا کا بھی اعلان کیا، بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران کو لیپ ٹاپ دیے گئے۔وزیراعظم نے پولیس فورس کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ تربیت کے بعد میدان عمل میں آپ نے عام آدمی کو انصاف دینا ہے اور عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہے، آپ نے شہروں اور دیہات میں امن قائم کرنا ہے، اہداف کا حصول تبھی ممکن ہے جب بہترین تربیت اور سہولتوں کویقینی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں دوبارہ دہشتگردی نے سر اٹھایا ہے، دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کیلئے ہماری بہادرافواج سرگرم ہیں، رینجرز، ایف سی، پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے روز دہشتگردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ان کا پولیس افسران سے یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کے جان ومال کی حفاظت اورانصاف مہیا کرنا آپ کی ترجیح ہونی چاہئے، آج نیشنل پولیس اکیڈمی میں آکر بہت خوشی ہوئی۔محمد شہباز شریف نے بتایا کہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب ایلیٹ فورس کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد ایلیٹ کا تحفظ نہیں بلکہ معاشرتی برائیوں کوختم کرنا ہے، انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لائے اور لاہور میں فرانزک لیب قائم کی، پنجاب پولیس میں 100 فیصد میرٹ پر بھرتیاں کیں جس کے بعد سب اداروں نے مل کردہشت گردی کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔وزیراعظم نے پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ دریائے جہلم میں ایک پولیس جوان نے شہریوں کی جان بچاتے ہوئے شہادت پائی، وطن کی آبیاری اور فرض کی ادائیگی کے لیے پولیس کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔قبل ازیں وزیر داخلہ محسن نقوی نے پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک سال پہلے اکیڈمی کی حالت بہت خستہ تھی، اکیڈمی میں کوئی سٹاف ممبرنہیں تھا اور یہ ڈمپنگ سٹیشن بن چکی تھی، وزیراعظم سے اکیڈمی کی تزئین و آرائش سے متعلق بات کی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی طرز پر پولیس اکیڈمی اور تربیت کا معیار بہتر بنائیں گے، اس اکیڈمی میں دوسرے ممالک کے لوگ تربیت کے لیے آتے تھے، اکیڈمی میں اقوام متحدہ اپنا پروگرام شروع کرے گی، سائبرکرائم، کریمنالوجی جیسے جدید کورسز متعارف کرائے جائیں گے، تربیت دینے والے افسران کو مناسب تنخواہیں دی جائیں گے۔نیشنل پولیس اکیڈمی میں 52ویں کامن بیچ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی، جس میں 43 افسران نے تربیت مکمل کی، جن میں 9 خواتین افسران بھی شامل ہیں، تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری بھی شریک ہوئے۔