Jasarat News:
2025-09-18@19:08:00 GMT

دفتر میں تھکن محسوس کریں تو توانائی بحال کرنا بہت آسان ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

دفتر میں تھکن محسوس کریں تو توانائی بحال کرنا بہت آسان ہے

دن بھر کام کے دوران اچانک تھکن محسوس کرنا عام بات ہے، خاص طور پر دفتری ملازمین کے لیے، جو طویل وقت تک ایک ہی پوزیشن میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کام کے دوران اکثر تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو یہ پریشان کن بات نہیں ہے۔ 2 ایسے آسان طریقے ہیں، جن پر عمل کرکے آپ اپنی توانائی بحال کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو دن بھر چاق و چوبند رکھ سکتے ہیں۔

کام کے دوران وقفہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ دفتری کام کے دوران کچھ دیر کا وقفہ لینا نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی توانائی بحال کرتا ہے۔ امریکا میں کی گئی تحقیق کے مطابق وقفہ لینے سے نہ صرف تھکاوٹ کم ہوتی ہے بلکہ نیند کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے اور اگلے دن توانائی میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔

اس آسان کام کے لیے آپ چند منٹ کے لیے کسی کتاب یا مضمون کا مطالعہ کر سکتے ہیں، چائے یا کافی کا وقفہ لے سکتے ہیں یا پھر کرسی سے اٹھ کر کچھ دیر کے لیے چہل قدمی بھی کر سکتے ہیں۔

ساتھیوں کی مدد کریں، ان سے معاونت لیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ کام کے دوران اگر آپ کو اپنے ساتھیوں کی مدد اور تعاون حاصل ہو تو ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے اور تھکاوٹ بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ دفتری ماحول میں خوشگوار تعلقات کام کا دباؤ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے کام میں مختصر وقفہ کرکے ساتھیوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔

اس کے لیے آپ کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں سے بات چیت کریں، انہیں سپورٹ کریں یا ان کا تعاون لیں۔ ماحول کو خوشگوار رکھیں تاکہ کام کا دباؤ کم محسوس ہو۔ اسی طرح کسی مسئلے کی صورت میں ساتھیوں سے ان کی رائے پوچھیں، اس سے بھی ذہنی بوجھ میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

کام کے دوران ایسی وجوہات جن سے تھکاوٹ بڑھتی ہے

پانی کی کمی: دن بھر کام کے دوران پانی پینا اکثر بھول جاتے ہیں، جس سے جسم میں ڈی ہائیڈریشن ہوتی ہے اور تھکن محسوس ہوتی ہے، لہٰذا دن میں کم از کم 8 سے 10 گلاس پانی پیجیے۔

بیٹھنے کا غلط انداز: اگر آپ کرسی پر جھک کر بیٹھتے ہیں تو کمر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھتا ہے، جس سے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، لہٰذا سیدھے بیٹھیں اور ہر گھنٹے بعد ہلکی ورزش کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: محسوس ہوتی ہے کام کے دوران سکتے ہیں محسوس ہو کے لیے

پڑھیں:

اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر) اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں کے مستقبل کے حوالے سے وزارت تجارت ککو مشکل کا سامناہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی تشویش کے مطابق ان اسکیموں کا فائدہ پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیاں تجارتی طور پر درآمد کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔وزارتِ تجارت کے ذرائع کے مطابق موجودہ اسکیمیں، جن میں گفٹ اسکیم، پرسنل بیگیج اسکیم اور ٹرانسفر آف رہائیش اسکیم شامل ہیں، بعض اوقات پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر ٹریف پالیسی بورڈ (ٹی پی بی) اور بین الوزارتی فورمز میں بحث ہو چکی ہے، مگر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ فنانس ڈویڑن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رائے کا انتظار ہے۔ذرائع کے مطابق وزارتِ صنعت و پیداوار کا موقف ہے کہ چونکہ عام طور پر پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہے، اس لیے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ اسکیمیں وضع کی گئی ہیں تاکہ وہ مخصوص حالات میں استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان لا سکیں۔ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ان اسکیموں کے تحت بڑی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ وزارتِ کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کے بعد، صرف ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر اسکیمیں غیر شفاف طریقے سے استعمال کی جا رہی ہیں اور تجارتی درآمد کا متبادل بن گئی ہیں۔وزارتِ نے زور دیا کہ صارفین کے مفاد، عوامی تحفظ اور ماحولیاتی نقصان سے بچاؤ کے لیے درآمد شدہ گاڑیاں کم از کم حفاظتی، معیار اور ایگزاسٹ کے معیار پر پوری اتریں۔ اسی مقصد کے لیے موٹر وہیکلز انڈسٹری ڈویلپمنٹ ایکٹ 2025 کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جو مقامی اور درآمد شدہ گاڑیوں کے ضوابط کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔پاکستان نے 2021 میں 1958 کے یو این ای سی ای معاہدے پر دستخط کیے، اور ای ڈی پی کو ڈبلیو پی 29 سیکریٹریٹ کے طور پر مقرر کیا گیا، جس کے تحت 17 بنیادی حفاظتی ضوابط اپنائے گئے ہیں۔وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق یہ ضوابط تمام درآمد شدہ گاڑیوں پر بھی لاگو ہوں گے، تاہم اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کے لیے مناسب جانچ کی سہولت موجود نہیں۔ اس لیے تمام درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفیکیشن ضروری ہوگا، جو جاپان آٹوموٹو ایپریزل انسٹی ٹیوٹ، جاپان ایکسپورٹ وہیکل انسپیکشن سینٹر، کورین ٹیسٹنگ لیبارٹری یا چائنا آٹوموٹو انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسی اداروں سے حاصل کیا جائے گا۔ یہ سرٹیفیکیٹ گاڑی کی حفاظت، معیار، ایگزاسٹ، اوڈومیٹر، اندرونی و بیرونی حالت، انجن اور ہوا کے بیگ جیسی تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ علاوہ ازیں صرف وہ کمپنیاں جنہیں موٹر وہیکلز کی تجارتی درآمد کا بنیادی کاروبار ہو، تجارتی بنیاد پر گاڑیاں درآمد کر سکیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے خواہشمند سرکاری ملازمین کی بڑی مشکل آسان
  • بچوں کے بال ان کی ذہنی صحت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتے ہیں
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے ، عاصم افتخار
  • اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
  • پنجاب حکومت نے آسان اقساط پر پہلی بلاسود ای ٹیکسی اسکیم کا آغاز کر دیا
  •  وزیراعظم شہباز شریف 3 ملکی دورے پر روانہ، اہم ملاقاتیں طے
  • پاکستان سمیت 16 ممالک کا فلوٹیلا کی سلامتی پر اظہارِ تشویش
  • اسرائیلی خاتون وزیر کی مشیر کے گھر سے منشیات بنانے کی لیبارٹری برآمد
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • پاکستان میں اسٹارلنک اور دیگر سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنیوں کی انٹری آسان بنادی گئی