Jasarat News:
2025-07-26@01:40:49 GMT

سندھ کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو مفت کھانا ملے گا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

سندھ کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو مفت کھانا ملے گا

کراچی: سندھ حکومت کی جانب سے عالمی ادارے کے اشتراک سے سرکاری اسکولز میں بچوں کو دوپہر کا مفت کھانا فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ سے ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر کوکو اوشی یاما نے ملاقات کی جس کے دوران اسکولز کے بچوں میں غذائیت کی کمی اور خوراک جیسے چیلینجز حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے کہا کہ خاندانی وسائل میں مشکلات اور آبادی کے رجحان کے سبب والدین بچوں کو بہتر غذا مہیا نہیں کر پاتے اور بچوں میں غذائیت کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے ان کے سیکھنے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔

سردار شاہ نے کہا کہ ہم یہ پروگرام ایسے علاقوں میں شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں غربت اور بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے، اسکولز میں باقاعدہ کھانے کی دستیابی سے اسکول چھوڑنے کی شرح کمی اور حاضری میں بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

اس موقع پر ڈبلیو ایف پی کی کنٹری ڈائکریٹر نے کہا کہ متوازن خوراک بچوں کی ذہنی نشوونما اور یاداشت کو بہتر بناتے ہے جس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اسکول میں متوازن خوراک ملنے سے بچوں کی قوت مدافعت بڑھے گی جس سے وہ مختلف بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

پروگرام کا پہلا مرحلہ کراچی کے ضلع ملیر سے شروع ہوگا اور اس سلسلے میں بیس لائن سروے بھی کیا جائے گا۔اس پروگرام کی مدد سے 11 ہزار بچوں اور بچیوں کو دو سال تک اسکول میں’’ ہاٹ میل لنچ بکس ‘‘ مہیا کیے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بچوں کو

پڑھیں:

بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں بنتے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب بچوں میں غذائی قلت بڑھ جائے، اس پر قابو پانے کے طریقے ناکام ہو جائیں اور خوراک و طبی نگہداشت تک رسائی ختم ہو جائے تو قحط خاموشی سے اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے۔

غزہ میں ایسی ہی صورتحال جنم لے چکی ہے جہاں بچوں اور بڑوں سبھی کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ Tweet URL

انہوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں 20 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسانی امداد کی فراہمی کو کڑی پابندیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

بھوک سے نڈھال اور کمزور بچوں کو ہنگامی بنیاد پر علاج کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے درکار وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ غزہ کو تقریباً دو سال سے متواتر بمباری کا سامنا ہے جس میں ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں لیکن اب بھوک بھی اسی قدر خوفناک قاتل بن چکی ہے۔

جو لوگ گولیوں اور بموں سے بچتے آئے ہیں انہیں بھوک سے ہلاکت کا سنگین خطرہ ہے۔بھوک سے 100 ہلاکتیں

اطلاعات کے مطابق، غزہ میں اب تک کم از کم 100 لوگ بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے غذائی قلت کے نتیجے میں پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم 21 بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا ہے۔

مارچ کے اوائل اور مئی کے وسط تک 80 یوم میں غزہ ہر طرح کی امداد سے محروم رہا جس کے باعث علاقے کی آبادی قحط کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔

اگرچہ مئی میں امداد کی فراہمی کسی حد تک بحال ہو گئی تھی لیکن اس کی مقدار ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ علاقے میں امدادی خوراک کی وقفوں سے فراہمی جاری ہے لیکن یہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بقا کے لیے کافی نہیں۔

خوراک کے لیے جان کا خطرہ

'ڈبلیو ایچ او' کے سربراہ نے بتایا ہے کہ 27 مئی اور 21 جولائی کے درمیان 1,000 سے زیادہ لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں بیشتر ہلاکتیں امریکہ اور اسرائیل کے زیرانتظام غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے مراکز پر ہوئیں جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خوراک کی تقسیم کا یہ اقدام بین الاقوامی امدادی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

والدین بتاتے ہیں کہ ان کے بچے بھوک سے بلکتے سو جاتے ہیں۔ خوراک تقسیم کرنے کے مراکز پر لوگوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

ہسپتال بھی حملوں سے محفوظ نہیں رہے جنہیں متواتر بمباری کا سامنا ہے جبکہ بیشتر طبی مراکز غیرفعال ہو چکے ہیں۔

سوموار کو اسرائیل کی فوج 'ڈبلیو ایچ او' کی عمارت میں داخل ہو گئی جہاں مرد عملے کو برہنہ کر کے ان کی تلاشی لی گئی جبکہ خواتین اور بچوں کو وہاں سے پیدل انخلا پر مجبور کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہےکہ ان حالات کے باوجود اقوام متحدہ کے ادارے غزہ میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

امدادی نظام کا انہدام

فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ غزہ میں امداد کی قلت عام شہریوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ 'انروا' کے کارکن روزانہ معمولی مقدار میں دال پر گزارا کر رہے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ کام کے دوران بھوک سے نڈھال اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی نگہداشت کرنے والوں کو بھی کھانا میسر نہ ہو تو اس کا مطلب پورے امدادی نظام کا انہدام ہے۔

'انروا' کے 6,000 ٹرک خوراک اور طبی سازوسامان لے کر اردن اور مصر میں تیار کھڑے ہیں جنہیں غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار ہے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی بلارکاوٹ فراہمی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں کتنے فیصد ملازمین کو خوراک کے حصول، بچوں کی نگہداشت میں مشکل کا سامنا؟
  • مصر کے نوجوان کی بوتلوں میں کھانا ڈال کر فلسطینیوں تک پہنچانے کی کوشش، ویڈیو وائرل
  • بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی
  • سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کے سینکڑوں ملازمین کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم
  • سرکاری محکموں میں گریڈ 5 سے 15 کی بھرتیوں پر عائد پابندی کے معاملے پر سماعت کیلئے تاریخ مقرر
  • سرکاری گاڑی کی نمبر پلیٹ کا پرائیوٹ گاڑی میں استعمال، سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے ایم ایس معطل
  • غزہ: یو این امدادی اہلکار بھی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے لگے
  • 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کا ماسٹر مائنڈ اسوقت اڈیالہ جیل میں قید ہے، شرجیل میمن
  • 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ نے قوم کے بچوں کو انتشار میں لگایا اور اپنے بچوں کو ملک سے باہر رکھا: شرجیل میمن
  • لودھراں کے مدرسے میں مبینہ زہریلا کھانا کھانے سے 9 بچوں کی حالت غیر، ایک جاں بحق