سبھی ٹی بیگز نقصان دہ نہیں
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کچھ عرصہ قبل یہ تحقیق سامنے آئی کہ ٹی بیگز گرم پانی میں ڈبونے سے پلاسٹک کے اربوں ننھے منے ذرات چھوڑتے ہیں۔یہ ذرے چائے میں شامل ہو کر انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی وجہ سے کینسر جیسی موذی بیماری چمٹ سکتی ہے۔ تاہم یہ بات جاننا ضروری ہے کہ تمام ٹی بیگز صحت کے لیے مضر نہیں۔ ٹی بیگز پر تحقیق انڈیپنڈنٹ یونیورسٹی آف بارسلونا ،اسپین کے محققوں نے انجام دی۔ سائنسدانوں نے پایا کہ چائے کی کچھ تھیلیوں نے گرم پانی میں جانے پر چائے کے ہر قطرے یا ملی لیٹر میں پلاسٹک کے تقریباً 1.
2 ارب ذرات چھوڑ دئیے ۔
تحقیق میں شامل ماہر، ریکارڈو مارکوس ڈاؤڈر نے عوام کو بتایا ’’ہم ہر جگہ خردبینی پلاسٹک ذرات کے نشانے پر ہیں۔ ہمیں خاص حالات میں، خاص جگہوں پر بے نقاب ہونے کی ضرورت نہیں، چائے کا کپ پینے جیسی آسان چیز ان ذروں کو جسم کے نادر پہنچانے کی خٓاطر کافی ہے۔ جب بھی آپ ایک کپ چائے پیتے ہیں، اربوں نینو پارٹیکلز یا نینو پلاسٹک ہمارے جسم میں پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
چائے پینے کا محفوظ طریقہ
اگر آپ پلاسٹک کھانے سے بچنا چاہتے ہیں تو چائے کی چند برانڈیڈ تھیلیاں دوسروں سے بہتر ہیں۔ اسپین کے سائنسدانوں نے جن ٹی بیگز کا مطالعہ کیا ان میں پولی پروپلین، سیلولوز اور نائیلون پلاسٹک موجود تھے لیکن دکانوں میں بہت سے ایسے ٹی بیگز بھی ملتے ہیں جو پلاسٹک سے پاک ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ آیا آپ کے چائے کے تھیلے پلاسٹک سے پاک ہیں، پیکیجنگ چیک کریں۔
پلاسٹک سے پاک برانڈز اس خصوصیت کو اپنی مارکیٹنگ میں استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے ٹی بیگز کے ڈبوں پر "پلاسٹک سے پاک" "بایوڈیگریڈیبل" اور "کمپوسٹیبل" جیسے لیبلوں کو تلاش کریں۔ اگر ڈبا بتاتا ہے "PP" (مطلب پولی پروپین)، "PET" ( پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ) یا "نائیلون" تو اس کا مطلب ہے کہ چائے کی تھیلیوں میں پلاسٹک ہے۔ ٹی بیگز میں پوشیدہ پلاسٹک سے بچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کھلی چائے استعمال کریں ، گو اسے معیاری اور پاک صاف ہونا چاہیے۔
مائیکرو پلاسٹک خطرناک کیوں؟
پلاسٹک سے بنی اشیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ننھے منے ذرات خارج کرتی ہیں۔ خاص طور پر بعض حالات میں، جیسے جب پلاسٹک کو گرمی کا سامنا کرنا پڑے یا اسے کھرچا جائے۔کوئنز یونیورسٹی، برطانیہ میں فوڈ سیفٹی کے چیئر پروفیسر کرس ایلیٹ کہتے ہیں ’’خوراک اور مشروبات کی وسیع اقسام پلاسٹک پیکجنگ میں آتی ہیں اور یہ شواہد بڑھتے جا رہے ہیں کہ ان سے جھڑتے پلاسٹک خردبینی ذرے انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘
پلاسٹک ایسے کیمیکلز خارج کرتا ہے جنھیں’’ اینڈوکرائن ڈسروپٹرز‘‘ (endocrine disruptors)کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ انسانی ہارمونوں کے نظام میں خلل ڈالتے اور بعض تو کینسر پیدا کر دیتے ہیں۔ اسپین میں ہوئی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات انسانی آنتوں کے خلیوں تک میں پہنچ چکے۔ یہ بھی پایا کہ ہمارے نظام ہاضم کے خلیے بڑی مقدار میں یہ ذرات جسم میں جذب کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ذرے خلیوں کے نیوکلی یعنی مرکزے میں بھی پہنچ گئے جہاں ڈی این اے رکھا جاتا ہے۔
ریکارڈو مارکوس ڈاؤڈر کا کہنا ہے، پلاسٹک کے ننھے ذرے ہر خلیے کی "انرجی فیکٹری"، مائٹوکونڈریا اور خلیے کے نیوکلیس میں داخل ہو کر ہمارے ڈی این اے میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ اسی خلل سے کینسر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔ خطرناک بات یہ کہ پلاسٹک کے ذرات آنتوں اور خون کے درمیان موجود ’’حیاتیاتی رکاوٹوں‘‘ کو آسانی سے پار کر کے خون میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یوں وہ انسانی بدن میں پھیلے تمام اعضا تک پہنچ کر انھیں خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ یاد رہے ، انسان نے پہلا مصنوعی پلاسٹک 1855ء میں بنایا تھا۔ تب سے انسان ساختہ پلاسٹک کی سیکڑوں اقسام ایجاد ہو چکیں۔ بیشتر اقسام قدرتی گیس یا تیل سے بنتی ہیں، اسی لیے ان سے جھڑتے ذرے انسانی صحت کے لیے خطرناک بن گئے۔ پچھلے ایک سو برس میں انسان نے اربوں ٹن پلاسٹک سے مختلف اشیا بنائی ہیں۔ ان کے ذرات اسی لیے اب انسانی ماحول کا ناگزیر حصہ بن چکے حتی کہ وہ ہماری غذا میں بھی داخل ہو رہے ہیں۔
ہم مگر ان ذرات کو نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وہ انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں۔ جن چھوٹے ذرات کا سائز 5 ملی میٹر سے 0.0001 ملی میٹر تک ہے، ان کو ’’مائیکرو پلاسٹک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سائز سے چھوٹے ’’نینو پلاسٹک‘‘ کہلاتے ہیں۔ پلاسٹک ہر قسم کے ماحول میں جھڑ جاتا ہے اور پانی، مٹی، خوراک اور یہاں تک کہ ہوا کے ذریعے فوڈ چین میں داخل ہو سکتا ہے۔
اعدادوشمار کی رو سے ہر ہفتے ہم تقریباً 5 گرام پلاسٹک کے ذرّات نگلتے ہیں، کریڈٹ کارڈ کا وزن اتنا ہی ہوتا ہے۔ایک سال میں یہ وزن کم ازکم 260 گرام یا ایک پاؤ بن جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک ذرات اب انسان کے تولیدی نظام کو بھی متاثر کرنے لگے ہیں۔ جن مرد وخواتین کے اجسام میں ان ذروں کی تعداد بڑھ جائے، وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مرد میں تولیدی خلیے کم بنتے ہیں ، عورت بانجھ ہو جاتی ہے۔ چناں چہ پلاسٹک بنی نوع انسان کے مستقبل کو تباہ کرنے والا سنگین خطرہ بن چکا۔
امریکا کی یونیورسٹی آف نیو میکسکیو میں ہوئی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ہمارے کھانے میں موجود مائیکرو پلاسٹک خون، جگر، گردوں یہاں تک کہ ہمارے دماغ پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔اسی طرح چند ہفتے قبل نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نے اطلاع دی کہ انسان کی شریانوں میں مائیکرو پلاسٹک اور نینو پلاسٹک کا ہونا امراض قلب کو جنم دیتا ہے۔ ان میں فالج ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
چین میں نیورو سرجنز نے ٹوکسولوجی جریدے میں تحریر کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک اور نینو پلاسٹک چھوت یعنی انفیکشن کے خلاف ہمارے دماغ کی قدرتی دفاعی رکاوٹ (blood-brain barrier) کو عبور کر سکتے ہیں۔ یہ زبردست رکاوٹ ہی خطرناک مادوں کو دماغ میں داخل ہونے سے روکتی ہے جو اہم دماغی افعال میں خلل ڈال دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی انسان یادداشت میں خرابی کا نشانہ بن سکتا ہے۔
پلاسٹک کے ننھے ذرات انسانی صحت پر جو تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں، طبی ماہرین تحقیق و تجربات سے انھیں نمایاں کر رہے ہیں۔ ان سے بچنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ پلاسٹک سے بنی تمام اشیا کا استعمال روزمرہ زندگی میں ترک کر دیا جائے۔ پیکجنگ بھی کاغذ یا گتے کی استعمال کی جائے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نینو پلاسٹک کرتے ہیں سکتے ہیں ٹی بیگز جاتا ہے داخل ہو ذرات ا
پڑھیں:
سماجی ترقی کا خواب غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
صدر مملکت آصف علی زرداری نے دوحہ قطر میں عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کا احترام اور سماج میں برابری کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس سماجی انصاف، برابری اور انسانی احترام کے اصولوں کی اجتماعی خواہش کا مظہر ہے، پاکستان ان اصولوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ایسی دنیا دیکھنے کا خواہاں ہے جہاں غربت کا خاتمہ ہو اور تمام لوگوں کو باعزت روزگار کے مواقع ملیں۔
یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ کی 80ویں سالگرہ پر پاکستان کا عالمی تعاون، انصاف اور پائیدار ترقی کا عزم
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان افراد کو پالیسی سازی میں مرکزی حیثیت دینے کا حامی ہے، دنیا میں انسانی حقوق کا احترام اور برابری یقینی بنانا ناگزیر ہے۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دنیا بھر میں سماجی تحفظ کے بہترین پروگرام کے طور پر سراہا گیا، ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور تربیت دینے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ پانی سب کا بنیاد حق ہے، پاکستان کو سرحد پار سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے خطرے کا سامنا ہے، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، کروڑوں پاکستانیوں کو پانی سے محروم کرنے کے اقدامات کامیاب نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی بحران کا ذمہ دار قرار دے دیا
انہوں نے کہا کہ دوحہ اعلامیے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برابری، احترام اور ہمدردی کے اصولوں کے گرد اکٹھا ہونا پڑے گا، ہر بچے کو تعلیم اور ہر ماں کو صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
صدر مملکت نے کہا کہ سماجی ترقی کا خواب غزہ میں نسل کشی اور بڑے پیمانے پر قحط کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا۔ عالمی برادری کو یقینی بنانا چاہیے کہ حالیہ جنگ بندی مستقل امن اور انصاف پر منتج ہو۔ فلسطین اور کشمیر کے عوام کا مسئلہ ایک سکے کے دو رُخ ہیں، ان تنازعات کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے سے ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ترقی سماجی انصاف صدر آصف علی زرداری قطر