Nawaiwaqt:
2025-06-01@02:56:21 GMT

پنجاب میں پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے خوشخبری

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

پنجاب میں پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے خوشخبری

 پنجاب میں پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے خوشخبری،حکومت پنجاب نے پراپرٹی ٹیکسز میں چھوٹ دے دی۔50لاکھ روپے تک کے گھروں کے مالکان کو ٹیکس سے استثنیٰ مل گیا ،50لاکھ سے زائد مالیت کے گھروں پربھی رعایت مل گئی،50لاکھ سے زائدمالیت کے گھروں پر ڈی سی ٹیبل ریٹ کے مطابق ٹیکس لگے گا۔ڈائریکٹر ایکسائز کاکہنا ہے کہ پہلے 5مرلے کے گھر پر ٹیکس لاگو تھا،مرلے کے حساب سے ٹیکس لگانے میں کافی مشکلات تھیں، حکومت نے ٹیکسز کی آسان طریقہ ادائیگی کے لیے قدم اٹھایا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی کمائی پر ٹیکس کی خبریں، یوٹیوبرز اور فری لانسرز کیا کہتے ہیں؟

مالی سال 2025-26 کا بحث 10 جون کو پیش ہونے جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس بار بجٹ میں سوشل میڈیا سے کمائی کرنے والوں کے لیے ایک نیا ’سرپرائز‘ تیار کیا جارہا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حکومت یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز سے حاصل ہونے والی آمدنی پر 3.5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس تجویز کا مقصد حکومت کے خزانے میں 52.5 ارب روپے کی اضافی رقم لانا ہے۔

ماضی میں سوشل میڈیا کا استعمال صرف تفریح تک محدود تھا مگر ایک طویل عرصے سے دنیا بھر میں خاص طور پر کرونا وبا کے بعد انفلوئنسر مارکیٹنگ کے رجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔ اور پھر یہ پلیٹ فارمز ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کمائی کا ذریعہ بن گئے۔

انفلوئنسرز  سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کمائی کر رہے ہیں۔ جسے ڈائریکٹ انکم کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔ دوسرا وہ اپنے سوشل میڈیا پر برانڈز کی پروموشن کر کے بھی کمائی کر رہے ہیں۔ اور لاکھوں کما رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اب اس آمدنی پر حکومت 2025 کے بجٹ میں ٹیکس لگانا چاہ رہی ہے۔

کیا اس طبقے کو نیٹ ٹیکس میں لانا چاہیے؟

یوٹیوب پوڈ کاسٹ ہوسٹ جنید اکرم کا کہنا تھا کہ ٹیکس دینا خوش آئند بات ہے۔ اگر کسی شخص کی آمدن اچھی ہے، جیسا کہ کریئٹر اکانومی میں بہت اچھا پیسہ ہے اور لوگوں کی زندگیاں بدل چکی ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ان پر ٹیکس عائد کرے۔

’ تاہم میں ان خبروں کی بنیاد پر حکومت پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا فریم ورک کیا ہوگا؟

ہماری فیس بک، یوٹیوب یا ٹک ٹاک سے جو بھی آمدن زرمبادلہ کی صورت میں پاکستانی بینک اکاؤنٹس میں آتی ہے، اس پر اسٹیٹ بینک پہلے ہی 1 فیصد ٹیکس چارج کر کے ڈالرز ہولڈ کرتا ہے، اور ہمیں پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کرتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی کو 1000 ڈالر موصول ہوں تو اسٹیٹ بینک اس میں سے 10 ڈالرز کاٹ لیتا ہے، جو کہ 1 فیصد بنتا ہے۔‘

جنید اکرم کا کہنا تھاکہ ہم یوٹیوبرز، انسٹاگرامرز اور ٹک ٹاکرز کو جتنے بھی پیڈ اشتہارات ملتے ہیں، ان میں کمپنیاں ہمیں پیسے دیتی ہیں اور اس کی باقاعدہ انوائسنگ کی جاتی ہے۔ انوائسنگ کے دوران کمپنیاں پہلے ہی ٹیکس کاٹ کر ہمیں نیٹ رقم ادا کرتی ہیں۔

’میں نے جتنے بھی کلائنٹس کے ساتھ کام کیا، ہمارا یہی طریقہ رہا ہے۔ کبھی کبھار کمپنیاں ٹیکس کی رقم ہمیں دے دیتی ہیں تاکہ ہم خود جمع کرا دیں، لیکن زیادہ تر وہ خود ہی ٹیکس ادا کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو بچی کھچی آمدن ہوتی ہے، اس پر ہم سالانہ انکم ٹیکس الگ سے ادا کرتے ہیں۔ تو ہم پہلے ہی تین جگہوں پر ٹیکس دے رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں کتنے فری لانسرز کے پاس بینک اکاؤنٹس ہیں؟

انہوں نے کہا، سوال یہ ہے کہ اب حکومت 3.5 فیصد نیا ٹیکس کس چیز پر لگانا چاہ رہی ہے؟ کیا وہ یوٹیوب سے حاصل شدہ آمدن پر لگانا چاہتی ہے، جس پر پہلے ہی 1 فیصد وصول کیا جا رہا ہے؟ یا وہ ہماری مجموعی سالانہ آمدن پر ایک نیا ٹیکس لگانا چاہ رہی ہے؟ حکومت کو اس کی واضح وضاحت دینی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر دبئی میں ہم نے دیکھا کہ انفلوئینسرز کو باقاعدہ لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ اس پیشے کو سرکاری سطح پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی یوٹیوبر کو بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو تو یوٹیوبر کیٹیگری موجود ہی نہیں ہوتی، لہٰذا ہمیں ‘ایڈورٹائزنگ ایجنسی’ کے طور پر رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح موسیقار حضرات کو ‘ساؤنڈ انجینئر’ کے طور پر رجسٹر ہونا پڑتا ہے۔

’حکومت پہلے ان کیٹیگریز کو تسلیم کرے، پھر انفلوئینسرز کو لائسنس جاری کرے۔ دبئی میں کمپنیاں صرف ان انفلوئینسرز کے ساتھ کام کرتی ہیں جو لائسنس یافتہ ہوں، کیونکہ انوائسنگ میں لائسنس نمبر شامل ہوتا ہے اور ٹیکس سورس پر ہی کٹ جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فلاں انفلوئینسر نے کہاں کام کیا اور اس کا ٹیکس کٹ گیا۔‘

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پیسے لینے میں تو آگے ہے، لیکن ہمیں کم از کم تسلیم تو کرے اور کوئی لائسنس سسٹم فراہم کرے۔ ہم اس کے بدلے وی آئی پی ٹریٹمنٹ نہیں مانگ رہے، بس شفافیت چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے اسٹیٹ بینک کے آئی ٹی برآمد کنندگان اور فری لانسرز  کے لیے نئے اقدامات متعارف 

 میں ذاتی طور پر ٹیکس دینے کا قائل ہوں۔ 3.5 فیصد کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ بہت سارے یوٹیوبرز اور انفلوئینسرز کی آمدن بہت اچھی ہے۔ اور یہ ان کا فرض بھی بنتا ہے کہ اگر وہ کسی ملک میں رہ رہے ہیں تو وہاں کے ٹیکس نظام کا حصہ بنیں۔ اگر وہ امریکا یا کینیڈا میں رہ رہے ہوتے تو وہاں 30 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہوتے۔ اپنے ملک میں اگر 3 فیصد دینا پڑ رہا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت کو یہ وضاحت دینا ضروری ہے کہ ٹیکس کس بنیاد پر اور کس سطح پر لگایا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اسٹیسٹا کے مطابق پاکستان میں انفلوئنسر ایڈورٹائزنگ مارکیٹ میں اشتہارات کے اخراجات 2025 میں 15.80 ملین امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

فری لانسر طاہر عمر کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر دنیا بھر میں، جہاں کہیں بھی آمدن ہوتی ہے، وہاں ٹیکس دینا ایک شہری فریضہ سمجھا جاتا ہے۔

اس لیے میرے خیال میں اگر حکومت ذرائع آمدن پہ ٹیکس لگاتی ہے تو اس کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔

لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ جب بھی آئی ٹی کی بات ہو تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انڈسٹری پاکستان میں زرمبادلہ لانے والے ذرائع میں بے حد موثر ذریعہ ہے ۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عام ٹریڈیشنل بزنسز کی نسبت آئی ٹی میں ذرمبادلہ سو فیصد ہوتا ہے۔ عام انڈسٹری میں عموماً پراڈکٹس بنانے کے لیے خام مال مختلف ممالک سے امپورٹ کیا جاتا ہے، جس کے بعد کچھ فیصد زرمبادلہ کے طور پہ موصول ہوتا ہے۔ جبکہ آئی ٹی انڈسٹری میں امپورٹ یا خرچ کئے جانے والے ڈالرز / اماؤنٹس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں، یوں زرمبادلہ سو فیصد ہوتا ہے۔

جیسے یوٹیوب یا ٹک ٹاک پہ کنٹینٹ کریشین کی مثال لے لئجیے کہ کونینٹ بنانے والا صرف کنیٹنٹ آپ لوڈ کرتا ہے بغیر کوئی رقوم خرچ کئے۔ اور سو فیصد رقم زرمبادلہ کے طور پہ پاکستان میں آتی ہے۔

کچھ یہی صورتحال فری لانسرز کی ہے کہ فری لانسنگ پلیٹ فارمز فری ہیں، وہاں سے کلائنٹس آتے ہیں اور مکمل رقم پاکستان میں آتی ہے۔

اس بنیاد پہ اگلے کم از کم 10 سال اس انڈسٹری کو ٹیکس فری کردینا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ڈالرز / زرمبادلہ پاکستان لاسکیں۔ اور اس انڈسٹری کو سٹیبل ہونے کا بھرپور موقع مل سکے۔

لیکن بدقسمتی سے بجائے ڈیجٹیل کرئیٹرز اور فری لانسرز کی حوصلہ افزائی کے اور انہیں سپورٹ کرنے کے، ہر بجٹ میں اس انڈسٹری پہ ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں جس سے غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور فری لانسرز ڈیجیٹل نومیڈ دیزاز لے کے اپنی سیونگز کو بیرون ممالک رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یا ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہی نہیں کرتے، کیوں کہ ایک ان جانا خوف پیدا کیا گیا ہے۔ اور جو کوئی ٹیکس میں آجاتا ہے اس کے لیے پراسیس اتنا مشکل ہے کہ وہ پھنس جاتا ہے۔ بینکس الگ سے ہراس کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ٹی ایکسپورٹس پہ ٹیکس چھوٹ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس انڈسٹری کے لوگوں میں اعتماد قائم کیا جائے، ان کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں، محض فوٹو شوٹس کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ اس انڈسٹری میں اعتماد بحال ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • جنوبی پنجاب میں عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو میدان میں اتاریں گے: زرداری
  • حکومت نے ٹیکسوں کے نام نئے رکھ دیے ہیں: مفتاح اسماعیل
  • وہ ملک جس کی پاکستان کیلئے حمایت پر بھارت میں کھلبلی مچ گئی
  • سوشل میڈیا کی کمائی پر ٹیکس کی خبریں، یوٹیوبرز اور فری لانسرز کیا کہتے ہیں؟
  • آئی ایم ایف ہی کی سن لیں
  • قربانی کا جانور خریدنے میں معاون ایپلیکیشن
  • امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض
  • ٹیکس بل پر اختلافات، ایلون مسک نے ٹرمپ حکومت سے استعفیٰ دے دیا
  • پاکستان بھر کے سنیما گھروں میں عیدالاضحی پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد
  • ٹیکس بل پر اختلافات کے بعد ایلون مسک نے ٹرمپ کی حکومت سے استعفیٰ دے دیا