ایچ آئی وی کا علاج: سائنس کے مشکل ترین اہداف میں سے ایک
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے مائیکرو بایولوجسٹ جیمز ریلی کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی، "اب بھی ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔" ان کے بقول وائرس کی شناخت کے کئی دہائیوں بعد اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کی موجودگی، ایڈز میں تبدیل ہونے سے پہلے تک، محض اس مرض کو دبائے رکھتی ہے۔ اور تقریباﹰ 40 ملین لوگ اب بھی ایچ آئی وی کے ساتھ زندہ ہیں۔
ادھر سائنسدان اب بھی ایچ آئی وی کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیمز ریلی کہتے ہیں جب تک اس کے مریض "ہر روز پری ایکسپوزر پروفیلیکسس) (پی آر ای پی) تھراپی حاصل کرتے رہتے ہیں، تو ایچ آئی وی دب جاتا ہے اور پھر انفیکشن دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔"
کیا یہ نئی دوا پاکستان میں ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد گار ہو سکتی ہے؟
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں متعدی امراض کے ماہر اسکاٹ کچن اینٹی ریٹرو وائرل ایچ آئی وی ادویات کو جدید طب کا "معجزہ" قرار دیتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی بھی انفیکشن کا علاج نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
محققین کے لیے اس کا علاج تلاش کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ریلی نے کہا کہ ایچ آئی وی کا علاج تلاش کرنا "سائنس کے مشکل ترین اہداف میں سے ایک ہے۔"
دنیا میں 84 کروڑ افراد جنسی عمل سے لگنے والی بیماری 'ہرپیز‘ سے متاثر
وہ کہتے ہیں، "ہم سخت قسم کے کینسروں کو شکست دے سکتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اسے کیسے حل کیا جانا چاہیے، اس پر ہماری گرفت ہے۔
لیکن ایچ آئی وی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک اس مسئلے کا حل ہی نہیں ملا ہے۔" ایچ آئی وی انسانی جینوم میں چھپ جاتا ہےایچ آئی وی انفیکشن کا علاج کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ وائرس ہمارے خلیوں میں چھپنے کی ناقابل یقین حد تک صلاحیت رکھتا ہے۔
جب ایچ آئی وی ہمارے جسموں کو متاثر کرتا ہے، تو یہ خود کو ہمارے جینیاتی مواد میں ضم کر لیتا ہے اور ایک غیر فعال حالت میں ہمارے خلیات کے جینوم میں چھپ جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا: ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ
یہ اس وقت فعال ہو جاتا ہے، جب ہمارے خلیے ڈی این اے کو پروٹین میں تبدیل کرتے ہیں، اس عمل کو ٹرانسکرپشن کہا جاتا ہے، جو ایک ایسا عمل ہے جس کی ہمیں زندگی جینے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ایچ آئی وی اسی عمل کو خفیہ طور پر استعمال کرتا ہے اور ہمارے خلیے نادانستہ طور پر وائرس کی نقل تیار کرتے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایچ آئی وی کو ان خلیوں سے الگ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا، جو خلیے اس سے خالی ہیں، لہذا جسم سے ایچ آئی وی کو ختم کرنے کا کوئی قابل اعتماد طریقہ نہیں ہے، کیونکہ اگر آپ ہدف کو دیکھ ہی نہیں سکتے، تو اس ہدف کو نشانہ کیسے بنا سکتے ہیں۔
اینٹی ریٹرو وائرل ادویات جیسے پی آر ای پی وغیرہ بس وائرس کو ناقابل شناخت سطح تک دبا دیتی ہیں، لیکن وائرس اب بھی انسانی جینوم میں سرایت کیے ہوئے رہتا ہے۔
ایڈز کے خاتمے کے لیے یہ سال فیصلہ کن ہو گا، اقوام متحدہ
کیا لوگ ایچ آئی وی سے صحت یاب نہیں ہوئے؟اب تک سات افراد کے ایچ آئی وی سے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، جس کے لیے ان کے جسم کے تمام مدافعتی خلیوں کو تبدیل کرنے والی اسٹیم سیل تھراپی کا استعمال کیا گیا۔
تاہم کچن کا کہنا ہے کہ "ہر وہ شخص جو آج تک ایچ آئی وی سے صحت یاب ہوا ہے، اس میں کینسر (لیوکیمیا یا لیمفوما) کے علاج کے لیے جو بون میرو کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا، اس سے ہوا ہے اور وہ بھی ان افراد میں جو کینسر کے ساتھ ہی ایچ آئی وی سے بھی متاثر ہوئے تھے۔
"تاہم ان کے بقول اسٹیم سیل تھراپی کی یہ شکل زیادہ تر لوگوں میں ایچ آئی وی کے علاج کے طور پر نامناسب ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک مشکل عمل ہے، جس میں موت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی کوشش صرف ان لوگوں میں ہی کی جاتی ہے، جو کینسر کے آخری مرحلے کے علاج سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو بدنامی اور تفریق کا سامنا
کچن کا کہنا ہے، "علاج کا یہ طریقہ کار مریض کے لیے کافی خطرناک ہوتا ہے،اور اس میں زیادہ لاگت بھی آتی ہے، کیونکہ اسے کسی بڑے ہسپتال یا طبی مرکز میں انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے سبب اس کا (استعمال) وہاں بہت محدود ہو جاتا ہے جہاں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔"کچن فی الحال ایچ آئی وی کے علاج کے لیے اسٹیم سیل تھراپی کی ایک نئی قسم پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ جسم میں پختہ ہونے کے بعد ایچ آئی وی سے متاثرہ خلیات کو مارنے کے لیے تبدیل شدہ خون کے اسٹیم سیلز کا استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، "اصل میں، یہ ایک 'جینیاتی ویکسینیشن' ہے جو جسم کو قدرتی طور پر ایسے خلیات بنانے کی اجازت دے سکتی ہے، جو ایچ آئی وی کو ختم کرتے ہیں۔
"ابھی تک یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے اور کچن کا کہنا ہے کہ ان کے اس نقطہ نظر سے کیمو تھراپی یا اسٹیم سیل ڈونر کو تلاش کرنے کی ضرورت سے بچا جا سکتا ہے۔
ایچ آئی وی پازیٹیو روسی نوجوان علاج کیوں نہیں کرواتے؟
کیا ٹی سیل تھیراپی سے ایچ آئی وی کا علاج ہو سکتا ہے؟بعض دوسرے محققین ٹی سیل تھراپیز (ٹی سی آر) پر علاج کی امیدیں لگا رہے ہیں، جن کے لیے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
ٹی سیلز ایک قسم کے مدافعتی خلیے ہیں۔ وہ خلیوں کے اندر بنے ہوئے پروٹین کا پتہ لگاتے ہیں، گویا وہ وائرل پروٹین یا زہریلے کیمیکل ہیں، پھر خطرے کو ختم کرنے کے لیے سیل کو مار ڈالتے ہیں۔
اگر کوئی خلیہ ایچ آئی وی سے متاثر ہوتا ہے، تو اس میں ایچ آئی وی کے نشان ہوتے ہیں، تاہم عام ٹی خلیوں کے ذریعے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یہ نظام میں شکاری کتوں کے ایک گروپ کو متعارف کرانے جیسا ہے، جو لومڑی کی خصوصیات کے ساتھ تیار کیے گئے ہوں۔
فرانس میں نوجوانوں کو کنڈوم مفت فراہم کرنے کا فیصلہ
ٹی سی آر ایس کا کئی کلینیکل ٹرائلز میں تجربہ کیا جا رہا ہے اور ان کی حفاظت کو ثابت کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا وہ کارآمد ہیں یا نہیں۔
ریلی کہتے ہیں کہ وہ ایچ آئی وی کا علاج تلاش کرنے کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہیں، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ مقصد چاند پر جانے جیسا ہے۔
وہ کہتے ہیں، "چاند پر جانا مشکل تھا؟ ہاں۔ لیکن ہم وہاں پہنچ گئے۔ اور ہم نے چاند پر جانے کی کوشش کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی ایجاد کی۔ میرے خیال میں ایچ آئی وی کا علاج ایسا ہی ہے۔ اس عمل میں ہماری کوششیں اس بات پر پھیل جائیں گی کہ ہم دوسری بیماریوں کا علاج کیسے کرتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (فریڈرک شوالر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں ایچ آئی ایچ آئی وی سے کا کہنا ہے کہ کا علاج تلاش اسٹیم سیل سے متاثر کہتے ہیں ہوتا ہے کے علاج جاتا ہے کے ساتھ کے لیے اب بھی ہے اور لیے اس
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔