Daily Ausaf:
2025-11-03@01:52:13 GMT

ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

( گزشتہ سے پیوستہ)
ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 2000 پائونڈ طاقت کے یہ بم اسرائیل نے سابق بائیڈن حکومت سے خریدے تھے اور ان کی ادائیگی بھی کر دی گئی تھی۔ اسرائیل طویل عرصے سے ان بموں کی سپلائی کے انتظار میں تھا، اس لئے ان کی فراہمی میں مزید تاخیر مناسب نہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دفاع کو مضبوط بنانا ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔یاد رہے کہ 2 ہزار پائونڈ طاقت کے یہ بم غیر آباد علاقوں اور پہاڑوں و صحرائوں میں زیر زمین تنصیبات کو تباہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور گنجان آباد شہری علاقوں میں ان کا استعمال دوران جنگ بھی ممنوع ہے، لیکن اسرائیل کو دیئے گئے یہ بم اس وقت متنازع بنے تھے جب غزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے ان کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی ہسپتالوں اور شہری تنصیبات پر تباہ کن بمباری کی ۔ ان حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
عالمی سطح پر ان حملوں کی شدید مذمت کی گئی تھی، جس کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے ان بموں کی فراہمی روک دی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ نہ صرف اسرائیل کے ساتھ ان کی مضبوط وابستگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ غزہ اور فلسطینی اتھارٹی کے حکام نے اس اعلان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام اسرائیل کو مزید جارحیت پر اکسانے کے مترادف ہے۔یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب خطے میں پہلے ہی تنا بڑھا ہوا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کی عسکری سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد عالمی برادری کی نظریں امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی پر مرکوز ہو گئی ہیں۔
دوسری طرف اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس طرح اس اسرائیل نواز اقدام سے ٹرمپ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ انہیں سوئنگ اسٹیٹس کے اپنے عرب امریکن ووٹرز کی کوئی پروا نہیں، اسی طرح وہ کسی بھی وقت اپنے پاکستانی امریکن ووٹرز کی خواہشات کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالنے کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے، امریکہ میں سفارتی ذرائع نے حال ہی میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کے حالیہ کامیاب دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے یہ یقین دلا یا ہے کہ ان کی حکومت پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جو شور شرابہ مچایا جا رہا ہے اس کی حیثیت چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے سے زیادہ نہیں اور نومنتخب امریکی صدر نے بانی پی ٹی آئی کو بھی جھنڈی کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ موجودہ شہباز حکومت اور پاکستان کی طاقتور شخصیات پر علامتی سی پابندیاں لگا دے گی لیکن موجودہ حکومت کی تبدیلی اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے زوردار دبا ئونہیں ڈالے گی، وجہ اس کی یہ بتائی جا رہی ہے کہ عمران خان کا چین، روس ، افغانستان اور ایران کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ امریکہ کی ڈیپ اسٹیبلشمنٹ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اور اس بنیادی خطرے کو نظر انداز کرکے کسی عارضی فائدے کے لئے امریکہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ریلیف دلوانے کی کوشش ہرگز افورڈ نہیں کر سکتا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کو بھی سخت پیغام دیا ہے اور ان کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت تک یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ افغان طالبان کی حکومت کے پاس امریکی یرغمالیوں کی تعداد ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہے، اگر یہ بات درست نکلی تو امریکہ افغان طالبان حکومت کی لیڈرشپ کے سروں کی قیمت اسامہ بن لادن سے بھی زیادہ مقرر کر سکتا ہے، افغانستان کے حوالے سے اس اعلان کے ساتھ ساتھ ٹرمپ حکومت ایران اور چین کیخلاف تجارتی پابندیاں سخت کرنے پر غور کر رہی ہے، ان حالات میں ایران، چین، افغانستان اور روس کے نظریاتی اتحادی عمران خان کو ریلیف دلوانے کی کوشش الٹی گنگا بہانے والی بات ہے اور انتہائی کائیاں اور گھاگ سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ سے اس بات کی توقع دیوانے کے خواب والی بات ہے کیونکہ ٹرمپ جذباتی ضرور ہے، پاگل نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی اور ان کے لئے ہے اور

پڑھیں:

ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی

یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔

آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔

یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔

انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔

یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔

گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔

بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔

ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔

مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔

گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔

یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔

اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔

آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم
  • نائیجیریا میں عیسائیوں کا قتل عام نہ رُکا تو فوجی کارروائی کریں گے، ٹرمپ کی دھمکی
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم