بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب طمون میں صہیونی فوج نے ایک ڈرون کے ذریعے بمباری کی جس کے نتیجے میں 10 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی دھڑوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں طوباس شہر کے قریب واقع قصبے طمون میں قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہڑتال اور سوگ کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب طمون میں صہیونی فوج نے ایک ڈرون کے ذریعے بمباری کی جس کے نتیجے میں 10 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ جمعرات کو طوباس میں اسلامی اور قومی فورسز نے اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف بطور احتجاج جامع ہڑتال اور سوگ کا اعلان کیا ہے۔ طمون میں نہتے فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتل عام پر فلسطینی عوامی اور قومی حلقوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔    اسلامی تحریک مزاحمت حماس، اسلامی جہاد موومنٹ اور دوسری فلسطینی قوتوں نے اس وحشیانہ کارروائی کو دشمن فوج کی بزدلانہ کارروائی قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اسلامی جہاد نے طمون میں قتل عام کو نازی مجرموں کے ہاتھوں قتل عام کی وحشیانہ کارروائی قرار دیا۔ اسلامی جہاد کا کہنا ہے کہ طمون قتل عام فلسطینی عوام، ان کی سرزمین اور ان کے مقدس مقامات کے خلاف دشمن کی جاری وحشیانہ جنگ کا تسلسل ہے۔ صہیونی دشمن اپنے جنگی جرائم اور وحؓشیانہ کارروائیوں سے فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو کم زور نہیں کرسکتا۔ صہیونی دہشت گردی سے فلسطینیوں میں مزاحمت اور جہاد کا جذبہ مزید تیز ہوگا۔   انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ہمارے عوام کے خلاف یہ کھلی جارحیت ایک منظم حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے جس کا مقصد مقبوضہ علاقوں میں کسی بھی فلسطینی کی موجودگی کو ختم کرنا ہے۔ اسلامی جہاد نے مزید کہا کہ یہ جارحیت ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب گذشتہ روز اسرائیلی کنیسٹ ایک نئے نسل پرستانہ قانون کی منظوری دی ہے جس کا مقصد یہودیوں کو مغربی کنارے میں زمین کی ملکیت کی اجازت دیتا ہے۔فلسطین کی مزاحمتی کمیٹیز نے شہدائے طمون کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی شہادت کو بزدلانہ، خونی قتل اور غاصب اسرائیلی حکومت کی طرف سے جنگی جرائم کی ایک تازہ کارروائی قرار دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جہاد قتل عام

پڑھیں:

کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا ملک ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا "ارادہ‘‘ رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ فرانس اور برطانیہ بعض شرائط کے ساتھ پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جی سیون گروپ سے تعلق رکھنے والا کینیڈا ایسا تیسرا ملک ہے، جس نے یہ اعلان کیا ہے۔

یہ فیصلہ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔

وزیر اعظم کارنی نے اس فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی امیدوں کو برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

کارنی نے کہا، "کینیڈا ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

" تسلیم کرنے کی شرائط کیا ہیں؟

کارنی نے کہا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فلسطینی اتھارٹی "2026 میں عام انتخابات کا انعقاد کرائے، جس میں حماس کا کوئی بھی کردار نہ ہو اور اس میں فلسطینی ریاست کو غیر عسکری بنانا بھی شامل ہے۔"

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ کینیڈا بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

کارنی نے زور دے کر کہا کہ حماس فلسطین کے مستقبل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی اور اسے مستقبل کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مارک کارنی نے کہا کہ دو ریاستی حل کو محفوظ رکھنے کا مطلب ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، جو تشدد یا دہشت گردی پر امن کا انتخاب کرتے ہیں۔

انسانی حقوق پر تشویش

کینیڈا کے وزیر اعظم نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع، غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں انسانی مصائب کی سطح ناقابل برداشت ہے اور یہ تیزی سے بگڑ رہی ہے۔

کارنی نے کہا کہ کینیڈا طویل عرصے سے مذاکراتی امن عمل کے ایک حصے کے طور پر دو ریاستی حل کے لیے پرعزم تھا، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ نقطہ نظر اب قابل عمل نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطینی ریاست کا امکان ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

کارنی نے نیوز کانفرنس کے دوران یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اس اعلان کے بارے میں بدھ کے روز ہی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بات کی تھی۔

اسرائیل کی کینیڈا کے اعلان پر تنقید

اسرائیل نے کینیڈا کی حکومت کے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کی مذمت کی ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا، "اس وقت کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے ایک انعام ہے اور یہ اعلان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک فریم ورک کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

"

اوٹاوا میں اسرائیلی سفارت خانے نے بھی کینیڈا کے اس اعلان کو "بین الاقوامی دباؤ کی مسخ شدہ مہم" کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس پر کڑی تنقید کی۔

سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا، "جواب دہ حکومت، کام کرنے والے اداروں، یا خیر خواہ قیادت کی غیر موجودگی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا، سات اکتوبر 2023 کو حماس کی ظالمانہ بربریت کو انعام اور قانونی حیثیت دیتا ہے۔"

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب، جماعت اسلامی کا مارچ ختم کرنے کا اعلان
  • ‘حق دو بلوچستان’ تحریک: حکومت اور جماعت اسلامی میں مذاکرات کامیاب، دھرنا ختم کرنے کا اعلان
  • سندھ ہائیکورٹ بار کی خواجہ شمس الاسلام کے قتل کی مذمت، کراچی بار کا کل ہڑتال کا اعلان
  • کوئٹہ: غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کیخلاف آج سے کارروائی کا فیصلہ
  • قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف سے متعلق الزامات، پی سی بی کا قانونی کارروائی کا اعلان
  • انسانی حقوق کا خون آلود طنز
  • حماس غزہ میں مزید اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنیکے درپے ہے، صیہونی میڈیا
  • کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • صیہونی، اسلامی ممالک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، محمد باقر قالیباف
  • معاہدے کی خلاف ورزی کرکے چینی کی زائد قیمتیں وصول کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے، وزیراعظم کی ہدایت