صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمان کو پیکا ایکٹ کے حوالے سے کیا کہا تھا؟ مولانا کا سخت ردعمل سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمان کو پیکا ایکٹ کے حوالے سے کیا کہا تھا؟ مولانا کا سخت ردعمل سامنے آ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 30 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الیکٹرونک میڈیا کے حوالے بنائے گئے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے حوالے سے حکومت اور صدر مملکت آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ کہا جائے اور وہاں کچھ کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے پنجاب کے شہر دینہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے صدر مملکت سے بات کی تھی اور صدرنے کہا تھا کہ محسن نقوی سے بات کی، وہ اسلام اباد آئیں گے توصحافیوں کے ساتھ رابطہ ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ صدرنے کہا حکومت سے کہوں گا جو تجاویزدی جائیں انہیں تسلیم کریں لیکن مجھے صبح پتہ چلا کہ صدرپیکا ترمیمی بل پر دستخط کر چکے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ کہا جائے اوروہاں کچھ کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ ایسا قانون ہے جس کا اثر ہماری ملکی صحافت پر براہ راست پڑتا ہے، صحافیوں کے تحفظات کو دیکھا جائے اور ان سے مشاورت کی جائے، سوشل میڈیا کی خرابیوں کے ازالے میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جس کے غلط استعمال کا امکان زیادہ غالب ہوتا ہے، جب بھی ہم نے شرعی قانون کی بات کی تویہ سوال اٹھایا گیا کہ اس کا استعمال غلط ہو گا، اللہ کے قانون کومخر کیا جاسکتا ہے تواسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کومخر کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماراموقف واضع ہے کہ الیکشن دھاندلی کی ہے صرف پنجاب نہیں پورے ملک کی بات کررہے ہیں، خیبر پختون خواہ میں دھاندلی ہوئی ہے اور دھاندلی کی بنیاد پرحکومت بنائی گئی ہے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے ہم پورے ملک میں از سرنو الیکشن کی بات کرتے ہیں، ملک کو کھلونا نہیں بنانا چاہیے، آئین یا پارلیمنٹ کھلونا نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جس طرح مرضی ہوبھرتی کر لی جائے اوربحران آئیں تووہ سامنا ہی نی کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف سے معمول کی ایک ملاقات ہوئی، سیاست میں اٹھنا بیٹھنا چلتا رہتا ہے، پی ٹی آئی سے ملاقات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ہم سواریاں ہیں اور حکومت ڈرائیور ہے سواریوں کو کیا پتہ کدھر جانا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں بانی پی ٹی آئی رہا ہوں لیکن رہائی دیکھ نہیں رہا، پاکستان ایک آزاد ملک ہے اورڈونلڈ ٹرمپ کو سب پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان میں ناکام ہوچکا، اسرائیل کی حمایت میں بھی شکست کھا چکا، ٹرمپ ہو جوبائیڈن، ڈیمو کریٹس ہوں یا ریپبلکنز دنیا کے لیے ان کی پالیسی ایک جیسی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا کا پاکستان کے لیے کوئی ایسا مثبت اقدام سامنے آئے تو ہم خیرمقدم کریں گے، میں کسی دوسری پارٹی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے پیکا ایکٹ صدر مملکت
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔