مصالحتی عدالتیں: جسٹس منصور علی شاہ کا صائب مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ نے کراچی میں آئی بی اے میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر تنازع سیدھا عدالت میں لانے کے بجائے پہلے بات چیت اور مصالحت کی کوشش کی جانا چاہیے اگر مصالحت سے مسئلہ حل نہ ہو تب ہی عدالت کا رخ کیا جانا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 86 فی صد مقدمات ضلعی عدالتوں میں ہیں اور ان عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، ہر کیس عدالت میں لے جانے کی کوشش کے بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مقدمات میں سست روی کے تناظر میں معاملات کے حل کے لیے دیگر ذریعے استعمال ہونے چاہئیں، انصاف تک رسائی کا مطلب مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہیے۔ حکم امتناع اور ضمانت سے معاملات حل نہیں ہوں گے، ہمارے پاس ججوں کی تعداد محدود ہے۔ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے، ہر تنازع عدالت میں جاتا ہے تاہم معاملات ثالثی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، عوام کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر آگاہی ضروری ہے اور پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فی صد مقدمات ہیں، عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز ہیں جب کہ ہمارے پاس جج کم ہیں اور یہ تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج نے اپنے طویل عدالتی تجربہ کی روشنی میں ملک کے نظام انصاف کی خستہ حالی کے اسباب کا درست تجزیہ کیا ہے اور اس کا معقول حل بھی پیش کیا ہے، انہوں نے گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اس نہایت تکلیف دہ معاملہ کے حل کے ضمن میں منعقد کی گئی کانفرنس سے خطاب میں بھی توجہ دلائی تھی کہ عوام بیس بیس برس تک مقدمات کے لٹکے رہنے سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے موجودہ عدالتی خرابیوں سے نجات پانے کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں جن میں سے نہایت آسان، کم خرچ اور ہماری دیرینہ روایات کی روشنی میں کارگر اور قابل عمل نظام مصالحتی عدالتوں کو رواج دینا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار تمام ذہنی تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج کی بات پر توجہ دیں تاکہ عوام کو موجودہ عدالتی نظام کی سست روی، اس کے بے پناہ اخراجات اور قیمتی وقت کے ضیاع کے سبب پیش آنے والی ذہنی اذیت سے نجات مل سکے۔ مصالحتی عدالتوں یا پنچائت کا نظام ہمارے خطے میں ماضی میں رائج رہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے فریقین کو موجودہ عدالتی نظام کے مقابلے میں بہت جلد اور بھاری بھر کم اخراجات کے بغیر آسانی سے انصاف مل جاتا ہے۔ پنجایت یا مصالحتی عدالت کے ارکان چونکہ مقامی معززین ہی ہوتے ہیں اس لیے وہ فریقین سے اکثر و بیشتر شناسا اور ان کے ماضی کے کردار سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے انہیں معاملہ کے حقائق تک پہنچنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی جب کہ ہمارے رائج الوقت نظام عدل میں منصف جھوٹے سچے گواہوں کی شہادتوں، وکلا کی بحث، دلائل اور قانونی موشگافیوں میں الجھے رہتے ہیں، ان کے لیے انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا آسان نہیں ہوتا، پھر مصالحتی عدالتوں میں فریقین کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے وکلا کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ انہیں اپنا موقف مخصوص انگریزی کے بجائے اپنی قومی یا مادری زبان میں بیان کرنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی اس طرح مصالحتی عدالتی نظام ہماری معاشرتی ضروریات سے بھی ہم آہنگ ہے، سستا بھی ہے اور جلد انصاف کا بھی ضامن ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکمران جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مصالحتی عدالت منصور علی شاہ کے لیے اس لیے نہیں ا
پڑھیں:
ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے‘سنی تحریک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سربراہ پاکستان سنی تحریک محمدشاداب رضا نقشبندی نے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف کی بجائے ای چالان نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے،ای چالان کے ذریعے بھاری بھرقم چالان عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کررہا ہے،عوام پہلے ہی مہنگائی وبے روزگاری سے پریشان ہیں ایسی صورت میں ای چالان کو بھاری بھرقم رقم وصول کرنے کیلئے مسلط کرنا افسوسناک ہے،قوانین کی کی پاسداری اور ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے جدید نظام متعارف کرانا اچھاہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں ای چالان کے ذریعے بھاری بھرقم گاڑیوں وموٹر سائیکل کے چالان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کیا،شاداب رضا نقشبندی نے کہا کہ کیاحکومت چاہتی ہے غریب عوام اب موٹر سائیکل چلانا بھی بند کردیں،حکمران عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے تو ایسے حالات بھی پیدا نہ کریں جس سے وہ مزید مشکلات میں مبتلا ہوجائیں انہوں نے کہا کہ ای چالان کے مخالف نہیں اور ٹریفک کا نظام بھی بہتر چاہتے ہیں حکومت عوام دوست پالیسی بنائے،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کے مخالف نہیں مگر ہزاروں میں نہ کیا جائے،نارمل چالان کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام با آسانی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ضرمانہ ادا کرسکیں،ای چالان کو سکھر،لاڑکانہ حیدر آباد و دیگر شہروں میں بھی نافذ کیا جائے،ای چالان کے ذریعے بھاری جرمانے عوام پر زیادتی ہوگی۔