Jasarat News:
2025-04-25@05:58:07 GMT

کراچی کے ساتھ تعلیمی زیادتی

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

کراچی کے ساتھ تعلیمی زیادتی

کراچی کے انٹر میڈیٹ کے نتائج سے کراچی کے طلبہ غیر مطمئن ہیں بلکہ بے چین ہیں۔ نتائج کے مطابق انٹرمیڈیٹ کے سال اول میں پری میڈیکل گروپ میں 66 فی صد اور پری انجینئرنگ میں 74 فی صد طلبہ فیل ہوگئے یوں ان نتائج کے ذریعے کراچی کے طلبہ کے پروفیشنل تعلیمی اداروں میں داخلے کے امکانات محدود کردیے گئے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا اس سے قبل 2023ء کے نتائج میں بھی جعل سازی کی گئی تھی۔ نگراں وزیراعلیٰ اس وقت مقبول باقر تھے۔ اُن کی تحقیقاتی ٹیم نے بھانڈا پھوڑا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم نے انکوائری کے بعد بتایا تھا کہ انٹر بورڈ کے آٹھ افسران نتائج تبدیل کرنے میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف تحقیقات اور فوجداری مقدمات کے لیے اینٹی کرپشن کو خط بھی لکھا گیا تھا۔ لیکن بعد میں ایکشن لینے کے لیے کوئی بات سامنے نہیں آئی تھی۔ اب پھر 2023-24 کے نتائج پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ اگر واقعی نتائج اس قدر خراب ہیں تو یہ پورے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ اور اگر نتائج بتدیل کر کے کراچی کے طلبہ کو فیل کیا گیا ہے تو اس سے بڑی دشمنی کراچی والوں کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ سندھ کے صرف تین شہروں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ انٹر کا نتیجہ حیدر آباد میں 93 فی صد، سکھر 80 فی صد اور کراچی میں 30 فی صد سے 35 فی صد کے درمیان ہے۔

چیئرمین انٹر بورڈ اس کی وضاحت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ طلبہ میٹرک کے بعد بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں فون ہوتا ہے کلاسز سے غیر حاضر ہوتے ہیں اور سب سے اُن کی مت اتنی ماری جاتی ہے کہ پرچوں میں محبت نامے اور گانے لکھنے لگتے ہیں۔ میٹرک میں 80 فی صد نمبر لینے والے یوں بے راہ رو ہو کر تیس سے پینتیس فی صد نمبر پر آجاتے ہیں۔ چلیں ان کے اس بیان کے بعد لوگ تسلی رکھیں کہ کراچی کے طلبہ تو خراب ہوگئے لیکن صد شکر کے سندھ کے دیگر شہر کے طلبہ نے ان فضول کاموں سے پرہیز کیا، موبائل کو اپنے بزرگوں کو تھما کر پڑھائی پر دھیان دیا نہ کلاسوں سے بھاگے نہ ہی کسی اور طرح کی خرافات میں مبتلا ہوئے اور یوں ذہانت کے سارے ریکارڈ توڑ کر 93 فی صد اور 80 فی صد نمبر حاصل کیے، اُمید ہے کہ اس دفعہ سارے پروفیشنل کالجز میں اُن کے داخلے زور و شور سے ہوسکیں گے۔ بشرطیکہ کے اگلے سال بھی وہ یہی سب کرسکیں۔ اس وضاحت کے بعد چیئرمین صاحب کی طرف سے کراچی کے طلبہ پر ایک احسان بھی کر ڈالا گیا کہ جو طلبہ اسکروٹنی چاہتے ہیں وہ آدھی فیس جمع کرادیں جو پانچ سو روپے ایک پیپر کی ہے۔ لیکن اسکروٹنگ کا مطلب پیپر کی دوبارہ جانچ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرچے پر دیے گئے نمبروں کو دوبارہ شمار کیا جائے اور اگر نمبر میں کمی ہے انہیں بڑھا دیا جائے۔ ان نتائج کے مطابق کراچی کا پوزیشن ہولڈر بھی انٹر کے امتحان میں سپلی کا حق دار بنایا گیا ہے۔ یہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ کہتے ہیں مل بیٹھ کر معاملہ نمٹا لیتے ہیں لہٰذا ایک کمیٹی بنادی گئی ہیں۔ جس کے سربراہ وزیر تعلیم ہوں گے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ سندھ کے تعلیم کے وزیر اور تعلیمی ذمے دار اس صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ تحقیقات تو حکومت سے ہٹ کر بدعنوانی سے پاک افراد کے ذمے ہونی چاہیے۔

سندھ کے محکمہ تعلیم کرپشن کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بدعنوان عناصر کا گڑھ ہے۔ سندھ کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے 2023ء 2024ء میں پچھتر ملین ڈالر قرض لیے گئے جائزہ لیا گیا تو اس رقم سے پچیس کروڑ کے قریب رقم خرچ کی گئی۔ باقی گاڑیوں کی مد میں بانوے ہزار ڈالر خرچ کیے گئے یہ بھی تین گاڑیوں پر خرچ کیے گئے۔ باقی تنخواہوں اور فرنیچر پر اور ان کی مرمت پر اور پاور جنریٹر اور ائرکنڈیشن وغیرہ کی خریداری پر خرچ کیے گئے۔ جبکہ سندھ کے اسکولوں میں نہ بچوں کے لیے پانی کا انتظام ہے نہ باتھ روم میں اور نہ ہی فرنیچر اور پنکھے موجود ہیں پتا نہیں کن اسکولوں میں ائرکنڈیشن لگانے پر دس ہزار ڈالر خرچ کیے گئے۔ غالب امکان ہے کہ گورنمنٹ کے عہدے داروں کے گھروں کو اسکول سمجھ لیا گیا ہوگا۔ سندھ میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی میں سندھ حکومت گردن گردن تک ملوث ہے، عشروں سے جاری اس صورت حال پر سندھ حکومت نہ پہلے کبھی شرمندہ ہوئی نہ اب انہیں کوئی ندامت ہے۔ اندرون سندھ تعلیم کے نتائج بہتر کرنے کے لیے انہوں نے دو نمبر طریقہ اپنا تو لیا لیکن یہ جعلی نتائج کا طریقہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کراچی کے طلبہ خرچ کیے گئے کے نتائج سندھ کے کے بعد کے لیے خرچ کی

پڑھیں:

الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار

لاہور:

ہائیکورٹ نے الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب ریٹرننگ آفیسر کے فرائض انجام دینے والے سول جج کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ درست قرار دیدیا ۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ اصل نتائج کو جاری کرنے کے ایک ماہ بعد نتائج کو تبدیل کیا گیا۔ مختلف پولنگ اسٹیشنز پر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کو کم کیا گیا۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں  کو ہارنے والے امیدواروں میں تقسیم کر دیا گیا اور  ایک گواہ کے مطابق انکوائری شروع ہونے پر سول جج نے شکایت کنندہ سے خدا کے نام پر معافی مانگی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے گواہی دی کہ الیکشن کے ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی۔  ٹریبونل کے سامنے سوال تھا کہ کیا سول جج کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ڈکلیئر ہو چکے رزلٹ کو تبدیل کر سکے ؟۔ ٹریبونل کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا یہ مس کنڈکٹ ہے؟ اور کیا اپیل کنندہ کو اس بنا پر سروس سے نکالا جا سکتا ہے؟۔

فیصلے کے مطابق سول جج کی جانب سے نتائج کی تیاری کے 4 دن بعد الیکشن ٹریبونلز قائم کر دیے گئے تھے، مگر سول جج نے 23 دنوں بعد نتائج تبدیل کرتے ہوئے فارم الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ سول جج نے کس قانون کے تحت یہ عمل کیا جب کہ الیکشن تنازعات صرف الیکشن ٹریبونل حل کرتا ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سول جج کی جانب سے مخالف فریق کو اس حوالے سے کوئی بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ سول جج کی جانب سے ڈی آر او کے بجاے نتائج براہ راست صوبائی الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے۔ عدالت مختلف عدالتی نظیروں کے بعد موجودہ درخواست کو خارج قرار دیتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ سول جج شیخ علی جعفر نے اپیل کے ذریعے 2015 کے دو آرڈرز کو چیلنج کیا۔ شیخ علی جعفر کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور بعد ازاں نمائندگی بھی مسترد کردی گئی۔ سول جج کو شاہ کوٹ تحصیل میں یونین کونسل کے الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق الیکشن میں امیدوار اصغر علی اصغر کامیاب ہوا جب کہ سول جج کی جانب سے امیدوار مقبول احمد جاوید کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ امیدوار اصغر علی اصغر نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو ایک شکایت درج کروائی۔ ڈی آر او کے ایک خط پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ نتیجہ چیک کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔ الیکشن کمیشن کو اس بابت رپورٹ ارسال کی گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک شکایت کا اندراج کروایا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے مارچ 2006 میں سول جج شیخ علی جعفر کو عہدے سے برخاست کر دیا۔ سروس ٹریبونل نے اکتوبر 2008 میں برخاستگی کا آرڈر معطل کردیا اور اعلیٰ عدلیہ نے ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے آبزرویشن دی کہ مس کنڈکٹ کا الزام بغیر باقائدہ انکوائری کے ثابت نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ اتھارٹی نے انکوائری کے بعد سول جج کو جون 2015 میں پھر سے سروس سے خارج کردیا۔ سول جج نے محکمانہ اپیل دائر کی جسے ستمبر 2015 میں خارج کردیا گیا ۔

سول جج کے وکیل کے مطابق الیکشن کے معاملات میں شکایت الیکشن کمیشن کے پاس درج کروانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے یا پھر سول جج کے اپنے محکمے کو شکایت بھیج سکتا ہے۔ سول جج کے خلاف شکایت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار
  • 7 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کرنے والا ملزم گرفتار،
  • کراچی: برطرف پولیس اہلکار گاڑیاں چھیننے لگے
  • پی ایس ایل 10 میں کونسی ٹیم کس پوزیشن پر ہے
  • کراچی، تھانے میں طلبہ کی توڑ پھوڑ، فائرنگ سے 4 زخمی
  • کراچی، ڈیفنس تھانے پر مشتعل افراد کا مبینہ حملہ، پولیس اور طلبہ میں تصادم، چار زخمی
  • سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنا ناممکن ہے، سنگین نتائج ہوں گے، سفارتی ماہرین
  • تعلیمی اداروں میں داخلے سے قبل طلبہ کا تھیلیسیمیا سمیت جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • پی ایس ایل 10 میں کونسی ٹیم کس پوزیشن پر ہے؟
  • کراچی میں تھانے بھی غیر محفوظ، شہری کی قیمتی 125 موٹر سائیکل چوری