کراچی کے ساتھ تعلیمی زیادتی
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
کراچی کے انٹر میڈیٹ کے نتائج سے کراچی کے طلبہ غیر مطمئن ہیں بلکہ بے چین ہیں۔ نتائج کے مطابق انٹرمیڈیٹ کے سال اول میں پری میڈیکل گروپ میں 66 فی صد اور پری انجینئرنگ میں 74 فی صد طلبہ فیل ہوگئے یوں ان نتائج کے ذریعے کراچی کے طلبہ کے پروفیشنل تعلیمی اداروں میں داخلے کے امکانات محدود کردیے گئے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا اس سے قبل 2023ء کے نتائج میں بھی جعل سازی کی گئی تھی۔ نگراں وزیراعلیٰ اس وقت مقبول باقر تھے۔ اُن کی تحقیقاتی ٹیم نے بھانڈا پھوڑا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم نے انکوائری کے بعد بتایا تھا کہ انٹر بورڈ کے آٹھ افسران نتائج تبدیل کرنے میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف تحقیقات اور فوجداری مقدمات کے لیے اینٹی کرپشن کو خط بھی لکھا گیا تھا۔ لیکن بعد میں ایکشن لینے کے لیے کوئی بات سامنے نہیں آئی تھی۔ اب پھر 2023-24 کے نتائج پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ اگر واقعی نتائج اس قدر خراب ہیں تو یہ پورے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ اور اگر نتائج بتدیل کر کے کراچی کے طلبہ کو فیل کیا گیا ہے تو اس سے بڑی دشمنی کراچی والوں کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ سندھ کے صرف تین شہروں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ انٹر کا نتیجہ حیدر آباد میں 93 فی صد، سکھر 80 فی صد اور کراچی میں 30 فی صد سے 35 فی صد کے درمیان ہے۔
چیئرمین انٹر بورڈ اس کی وضاحت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ طلبہ میٹرک کے بعد بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں فون ہوتا ہے کلاسز سے غیر حاضر ہوتے ہیں اور سب سے اُن کی مت اتنی ماری جاتی ہے کہ پرچوں میں محبت نامے اور گانے لکھنے لگتے ہیں۔ میٹرک میں 80 فی صد نمبر لینے والے یوں بے راہ رو ہو کر تیس سے پینتیس فی صد نمبر پر آجاتے ہیں۔ چلیں ان کے اس بیان کے بعد لوگ تسلی رکھیں کہ کراچی کے طلبہ تو خراب ہوگئے لیکن صد شکر کے سندھ کے دیگر شہر کے طلبہ نے ان فضول کاموں سے پرہیز کیا، موبائل کو اپنے بزرگوں کو تھما کر پڑھائی پر دھیان دیا نہ کلاسوں سے بھاگے نہ ہی کسی اور طرح کی خرافات میں مبتلا ہوئے اور یوں ذہانت کے سارے ریکارڈ توڑ کر 93 فی صد اور 80 فی صد نمبر حاصل کیے، اُمید ہے کہ اس دفعہ سارے پروفیشنل کالجز میں اُن کے داخلے زور و شور سے ہوسکیں گے۔ بشرطیکہ کے اگلے سال بھی وہ یہی سب کرسکیں۔ اس وضاحت کے بعد چیئرمین صاحب کی طرف سے کراچی کے طلبہ پر ایک احسان بھی کر ڈالا گیا کہ جو طلبہ اسکروٹنی چاہتے ہیں وہ آدھی فیس جمع کرادیں جو پانچ سو روپے ایک پیپر کی ہے۔ لیکن اسکروٹنگ کا مطلب پیپر کی دوبارہ جانچ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرچے پر دیے گئے نمبروں کو دوبارہ شمار کیا جائے اور اگر نمبر میں کمی ہے انہیں بڑھا دیا جائے۔ ان نتائج کے مطابق کراچی کا پوزیشن ہولڈر بھی انٹر کے امتحان میں سپلی کا حق دار بنایا گیا ہے۔ یہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ کہتے ہیں مل بیٹھ کر معاملہ نمٹا لیتے ہیں لہٰذا ایک کمیٹی بنادی گئی ہیں۔ جس کے سربراہ وزیر تعلیم ہوں گے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ سندھ کے تعلیم کے وزیر اور تعلیمی ذمے دار اس صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ تحقیقات تو حکومت سے ہٹ کر بدعنوانی سے پاک افراد کے ذمے ہونی چاہیے۔
سندھ کے محکمہ تعلیم کرپشن کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بدعنوان عناصر کا گڑھ ہے۔ سندھ کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے 2023ء 2024ء میں پچھتر ملین ڈالر قرض لیے گئے جائزہ لیا گیا تو اس رقم سے پچیس کروڑ کے قریب رقم خرچ کی گئی۔ باقی گاڑیوں کی مد میں بانوے ہزار ڈالر خرچ کیے گئے یہ بھی تین گاڑیوں پر خرچ کیے گئے۔ باقی تنخواہوں اور فرنیچر پر اور ان کی مرمت پر اور پاور جنریٹر اور ائرکنڈیشن وغیرہ کی خریداری پر خرچ کیے گئے۔ جبکہ سندھ کے اسکولوں میں نہ بچوں کے لیے پانی کا انتظام ہے نہ باتھ روم میں اور نہ ہی فرنیچر اور پنکھے موجود ہیں پتا نہیں کن اسکولوں میں ائرکنڈیشن لگانے پر دس ہزار ڈالر خرچ کیے گئے۔ غالب امکان ہے کہ گورنمنٹ کے عہدے داروں کے گھروں کو اسکول سمجھ لیا گیا ہوگا۔ سندھ میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی میں سندھ حکومت گردن گردن تک ملوث ہے، عشروں سے جاری اس صورت حال پر سندھ حکومت نہ پہلے کبھی شرمندہ ہوئی نہ اب انہیں کوئی ندامت ہے۔ اندرون سندھ تعلیم کے نتائج بہتر کرنے کے لیے انہوں نے دو نمبر طریقہ اپنا تو لیا لیکن یہ جعلی نتائج کا طریقہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کراچی کے طلبہ خرچ کیے گئے کے نتائج سندھ کے کے بعد کے لیے خرچ کی
پڑھیں:
پارکنگ فیس پر پابندی بے اثر، کراچی میں مافیا بے لگام
شہریوں نے غیر قانونی وصولی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اعلان تک محدود نہ رہے بلکہ پارکنگ مافیا کے خلاف مثر اور نظر آنے والا ایکشن لے۔ محکمہ بلدیات کی ہدایت کے باوجود، عملدرآمد نہ ہونے سے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ فیس کے خاتمے کا یہ حکومتی اقدام عملی طور پر کس حد تک موثر ہو پایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ حکومت کی جانب سے شہر بھر میں پارکنگ فیس کے مکمل خاتمے کے باضابطہ اعلان اور نوٹیفکیشن کے باوجود، کراچی کے مختلف علاقوں میں شہریوں سے غیرقانونی طور پر پارکنگ فیس وصولی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ وزیراعلی سندھ کی ہدایت پر محکمہ بلدیات نے 25 ٹاؤنز میں جاری پارکنگ فیس پر مکمل پابندی عائد کی جبکہ مئیر کراچی مرتضی وہاب کی درخواست پر اس فیصلے کو عوامی مفاد میں فوری نافذ العمل کیا گیا۔ کراچی کے مصروف ترین تجارتی مرکز صدر میں اب بھی شہریوں کو پارکنگ کے لیے فیس ادا کرنا پڑ رہی ہے، حالانکہ محکمہ بلدیات کی جانب سے 25 ٹاؤنز میں سڑکوں پر پارکنگ فیس پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت نے وزیراعلی کی ہدایت اور مئیر کراچی مرتضی وہاب کی درخواست پر پارکنگ مافیا کے خلاف بڑا اقدام کرتے ہوئے تمام اہم سڑکوں پر فیس لینے پر پابندی لگا دی تھی۔ جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق اب صرف مخصوص پلازہ، پلاٹس یا واضح کردہ علاقوں میں ہی فیس لی جا سکتی ہے، شہر کی 46 بڑی سڑکیں اور تمام مرکزی شاہراہیں پارکنگ فیس سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دی گئی تھیں۔ تاہم صدر، صدر موبائل مارکیٹ، گلشن اقبال، لائٹ ہاؤس، ایم اے جناح روڈ، اور کچھ دیگر مقامات پر اب بھی پرانے طریقہ کار کے تحت افراد شہریوں سے پارکنگ فیس طلب کر رہے ہیں۔
مرتضی وہاب نے فیصلے کو عوام کے لیے بڑی سہولت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہریوں پر اضافی مالی بوجھ ختم کرنا ان کی اولین ترجیح تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سڑکوں پر پارکنگ فیس کی آڑ میں مافیا سرگرم تھی، جس کا اب مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے پارکنگ فیس سے متعلق نئی پالیسی کے فوری نفاذ کی ہدایت دی تھی اور متعلقہ اداروں کو واضح پیغام دیا کہ عوامی سہولت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کے ایم سی کے علاوہ اب کوئی بھی ادارہ شہر کی سڑکوں پر پارکنگ فیس لینے کا مجاز نہیں ہوگا۔