سویلینز کا ملٹری ٹرائل؛ اے پی ایس حملہ اور 9 مئی احتجاج کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ اے پی ایس حملہ اور 9 مئی احتجاج کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے اپنے دلائل دیے۔ دوران سماعت وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ ہوا، 9 مئی پر احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟۔ وکیل احمد حسین نے آئینی بینچ کو بتایا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا۔اے پی ایس واقعہ کے بعد 21ویں ترمیم کی گئی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے۔
9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے، وکیل وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے۔ 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں آئین سے منافی قانون سازی کو عدالت دیکھ سکتی ہے۔
جو خود متاثرہ ہو وہ فریق کیسے انصاف دے سکتا ہے؟ وکیل خواجہ احمد حسین اس موقع پر وکیل نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیے کا تذکرہ کیا۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعے پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا۔کیا آپ کو اعلامیے پر اعتراض ہے؟۔ میرا اعلامیے کے پہلے حصے پر اعتراض نہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں۔ کور کمانڈرز اجلاس اعلامیے کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے۔ جو خود متاثرہ ہو وہ فریق کیسے انصاف دے سکتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے یہ دلائل کیس کے میرٹس سے متعلق ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ عدالتی فیصلے تک اپنے دلائل محدود رکھیں۔ خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ جو خود متاثرہ ہو وہ شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمارے سامنے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی مثال موجود ہے۔ کلبھوشن یادو کیس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا مستقل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’’اچھا جی‘‘۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے اسپیشل ریمیڈی والوں کو استثنا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ وکل نے کہا میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔ میں اپنے دلائل کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، وکیل کے دلائل وکیل نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ملزمان کا مقدمہ یہاں پر لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے۔ آرمی چیف اجازت نہ دیں پسند کا وکیل نہیں ملتا۔ فیصلہ کوئی کرتا ہے، فیصلے کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے۔ ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں۔ ایف بی علی کیس میں قانونی شقوں کو برقرار رکھا گیا۔ ایف بی علی فیصلے کی کئی عدالتوں میں توثیق کی گئی ہے۔ 21 ویں ترمیم کا فیصلہ 17 ججز کا ہے۔
روزانہ فوجی جوانوں کے شہید ہونے کی خبریں آ رہی ہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آئے روز افواج پاکستان کے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ روزانہ 13 جوانوں، 5 جوانوں کے شہید ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ افواج پاکستان پر حملوں میں سویلین ملوث ہیں۔ آرمی ایکٹ کی شقیں ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیدیا گیا۔ اس عدالتی فیصلے کی موجودگی میں افواج پاکستان کے شہدا کو انصاف کیسے ملے گا؟۔ آپ کہہ رہے ہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں کیسز چلائے جائیں، شواہد کہاں سے آئیں گے۔ وکیل احمد حسین نے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں جسٹس اجمل میاں نے لکھا دہشت گردوں سے بہترین ردعمل سویلین عدالتوں میں ٹرائل چلا کر ہی لیا جا سکتا ہے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس صرف کراچی تک محدود تھا۔ اس وقت ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ دو صوبے بلکہ تقریباً ڈھائی صوبے دہشت گردی کا شکار ہیں، جس پر خواجہ حمد حسین نے کہا کہ افواج پاکستان کا تحفظ سب کو عزیز ہے۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وکیل خواجہ احمد حسین نے جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس امین الدین خان احمد حسین نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں میں ٹو ون ڈی ٹو پر وکیل نے آرمی ایکٹ اے پی ایس کا ٹرائل ایکٹ کا سکتا ہے میں کیا نہیں ہو میں کی
پڑھیں:
اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی، 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور ایس آئی ایف سی کی تحلیل کا مطالبہ
اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تشویش ہے جس سے نکلنے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
پریس کانفرنس میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اے پی سی کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور سیاسی اسیروں کی رہائی کا مطالبہ اور اپوزیشن لیڈرز کی 9 مئی مقدمات میں سزاؤں کی مذمت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اے پی سی میں طے پانے والے 10 نکات کیا ہیں؟
اپوزیشن اے پی سی کے رہنماؤں نے ملک میں ایک نئے میثاق کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہائبرڈ نظام کی وجہ سے ریاست اور عوام میں سماجی معاہدہ کمزور پڑچکا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئے میثاق کے مطابق قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، منصفانہ الیکشنز اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسائل حل کیے جائیں۔ اعلامیے میں ‘ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیئشن کمیشن’ کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ مقننہ کے اختیار میں مداخلت کی کسی بھی آئینی ترمیم کو ختم کیا جائے اور اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کی آئینی حدود پر عمل کیا جائے۔ اے پی سی نے ایس آئی ایف سی کے قیام کی مذمت کرتے ہوئے اسے 18ویں کی روح کے منافی قرار دیا اور اسے تحلیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ ایس آئی ایف سی کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی گئی زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانفرنس میں شریک جماعتوں نے اعلامیے میں کہا کہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، 26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کا تصور ختم ہوچکا ہے، عدلیہ کی آزادی کی بحالی کے لیے 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی تائید کرتے ہوئے ان ججز کو عوام کا ہیرو قرار دیا اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں