شادی کے رشتے میں ظاہری کشش کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
’ آخر مجھ میں کیا کمی تھی جو میرے خاوند نے مجھے چھوڑ دیا‘، یہ جملہ آپ نے سنا ہو گا جو کوئی عورت علیحدگی کے بعد کہہ رہی ہوگی۔
’میں نے اپنی بیوی کو ہر سہولت دی تھی، لیکن پھر بھی وہ بیوفائی کر گئی‘، یہ جملہ بھی آپ نے سنا ہوگا جو کوئی مرد بیوی کے چھوڑ جانے پر کہہ رہا ہوگا۔
دراصل یہ ہماری اس عمومی سوچ کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو شادی میں آخر کیا چاہیے ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آپ کی پرانی شادی کو نئے دور میں خطرہ ہے
مرد کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک عدد عورت اس کو میسر آ جائے تو بس اس کی ساری خواہشات مکمل۔ اب اس کو یہ شادی یہ تعلق ہر حال میں چلانا چاہیے۔
عورت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خرچہ پانی دے دیا جائے اور کپڑے لتَّے کا خیال رکھا جائے تو بس عورت کی تسلی ہو گئی۔ اب اس کو اس شادی سے کبھی بھی ناخوش نہیں ہونا چاہیے۔
ایسی سوچ رکھنے والے ہی اکثر پھر یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ آخر میں نے کیا کمی چھوڑی جو یہ رشتہ نہ چل سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ شادی دراصل واحد رشتہ ہے جس میں جسمانی کشش سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جسمانی تعلقات سے لے کر ایک دوسرے کے ساتھ دن رات گزارنا، اکٹھے سونا اکٹھے جاگنا اور بچے پیدا کرنا اور پالنا یہ سب کام ایسے ہیں کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے ساتھ کرنا عذاب ہو جاتا ہے۔
اس لیے دنیا کے تمام مذاہب، تمام فلاسفرز 2 انسانوں کے درمیان خاص تعلق کو پسندیدگی، رضامندی اور اکثر محبت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور ان کے بغیر تعلق کو غلط قرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:کیا کامیاب کیریئر کامیاب شادی کی گارنٹی ہوتا ہے؟
شادی ایک جذباتی، ذہنی اور جسمانی تعلق کا مجموعہ ہے۔ جسمانی کشش بھی ایک اہم عنصر ہے جو میاں بیوی کے رشتے میں محبت، قربت اور خوشی کو بڑھاتی ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی زیادہ اہم ہو جاتی ہے، لیکن جسمانی کشش کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی۔
شادی شدہ زندگی میں رومانس اور جذباتی لگاؤ کو قائم رکھنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کو پرکشش محسوس کرتے ہیں، تو ان کے درمیان محبت کا اظہار زیادہ فطری اور خوشگوار ہو جاتا ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان تعلق پسندیدگی پر مبنی ہوگا تو ان کا جسمانی اور جذباتی تعلق گہرا ہوگا۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے اور ایک دوسرے کے قریب رہنے کی خواہش کو بڑھاتا ہے، جو رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
جب دونوں پارٹنرز ایک دوسرے کے لیے پرکشش ہوتے ہیں، تو وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحت مند زندگی گزارنا، اچھی خوراک لینا اور اپنی ظاہری شخصیت کا خیال رکھنا نہ صرف خود اعتمادی بڑھاتا ہے بلکہ شریک حیات کو بھی خوشی دیتا ہے اور اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے پرکشش نہیں ہوں گے، تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دونوں کسی ایکسٹرا میریٹل افیئر کا شکار ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھیں:تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
شادی شدہ زندگی میں جسمانی تعلق ایک فطری ضرورت ہے۔ جب دونوں پارٹنرز ایک دوسرے کے لیے پسندیدہ ہوتے ہیں، تو یہ تعلق زیادہ خوشگوار اور تسکین بخش ہوتا ہے، جو ذہنی سکون اور خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔ جبکہ ناپسندیدہ شخص سے جسمانی تعلق ایک ذہنی عذاب کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اگر ایسا مسلسل کئی سال تک ہوتا رہے تو یقیناً انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
جب میاں بیوی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے ہیں تو اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جذباتی اور ذہنی خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔ محض جذباتی ہم آہنگی کافی نہیں ہوتی، وقت کے ساتھ ساتھ جسمانی کشش بھی رشتے میں جوش و خروش برقرار رکھتی ہے۔ یہ شادی کے رشتے کو خوشگوار اور طویل بنانے میں مدد دیتی ہے۔
اگر آپ کے تعلق میں مسائل آ رہے ہیں تو سب سے پہلے جو ٹیسٹ آپ کو کرنا چاہیے۔ وہ یہی ہوگا کہ آپ دونوں کے درمیان جسمانی کشش کس قدر ہے۔ اگر آپ یہ ٹیسٹ پاس کر جاتے ہیں تو پھر باقی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ لیکن اگر آپ جسمانی کشش کو نظر انداز کر کے دیگر مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے تو بالآخر ناکام ہوں گے۔ اگر یہ رشتہ کسی مجبوری کی وجہ سے قائم بھی رہتا ہے تو یہ ایک پھیکا اور تکلیف دہ تعلق رہےگا۔
اکثر ہم یہ مشورہ بھی سنتے ہیں کہ بچوں کی خاطر اس رشتے کو چلاتے رہنا ہی بہتر ہے۔ لیکن ایک ناخوشگوار تعلق کا اثر اردگرد کے تمام افراد پر ہوتا ہے اور سب سے زیادہ اثر خود اس جوڑے کی اولاد پر ہوتا ہے۔
جب میاں بیوی کے درمیان ایک صحت مند جسمانی کشش ہوتی ہے، تو ان کا تعلق خوشگوار رہتا ہے۔ اس کا اثر ان کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد پر بھی پڑتا ہے، کیونکہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا ماحول بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے۔
میاں بیوی کی جسمانی کشش ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلق میں کئی طرح کی نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ یہ تبدیلیاں مثبت ہوں منفی نہ ہوں۔
بیوی میں اگر گھر کے کام کاج اور بچوں کی پیدائش کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں اور وہ وزن بڑھنے، جسمانی ساخت کی تبدیلی اور تھکاوٹ کا شکار ہوتی ہے تو شوہر بھی مسلسل ملازمت، کاروبار اور دیگر معاشی تناؤ کی وجہ سے موٹاپے، گنجے پن اور بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ عجیب ہییت اختیار کرنے لگتا ہے۔
ایسے میں اگر میاں بیوی اوپر شروع میں بیان کیے گئے خیالات رکھتے ہیں کہ میں اپنی حد تک اپنی شادی میں سب کچھ کر رہا ہوں یا کر رہی ہوں، تو مجھے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو یقیناً اس کشش کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اپنے اندر کوئی موٹیویشن نہیں رکھتے۔ لیکن جن شادی شدہ جوڑوں کو جسمانی کشش سے ملنے والے فائدوں کا اندازہ ہو جاتا ہے وہ اپنے تعلق کی تازگی اور صحت برقرار رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں اگرچہ جسمانی کشش ہی بنیادی چیز ہے اور اس کے بغیر باقی سب کوششیں بیکار ہیں۔ لیکن جسمانی کشش کی کمی کو شادی کے مسلسل تعلق میں کئی اور باتوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
مسلسل ساتھ رہنے میں آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت یادیں بنانے کا موقع ملتا ہے۔ آپ ایسے جملے تخلیق کرتے ہیں جو صرف آپ دونوں ہی جانتے ہیں۔ ایسے اشارے جو صرف آپ دونوں کے لیے مخصوص ہیں۔ مختلف سفری یادیں، بیماری میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی یادیں۔
ایک دوسرے کے دوستوں رشتے داروں کے لیے اچھی دعوتیں وغیرہ یہ سب باتیں ایسی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے آپ اپنے ساتھی میں ایک خاص کشش محسوس کرتے ہیں۔ یہ مخصوص کشش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے والی جسمانی کشش کا مداوا کر دیتی ہے۔
اگر آپ جسمانی کشش کے علاوہ جذباتی کشش پر مزید پڑھنا چاہیں تو ہمیں کامنٹس میں ضرور آگاہ کریں۔ اگلے ہفتے اس موضوع پر مزید تفصیل سے بات کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود فیاض ہمہ جہت لکھاری ہیں۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر پچھلے 10سال سے لکھ رہے ہیں۔ ایک کتاب "مرد و عورت" کے مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا پر ان کی 12ہزار کے قریب تحاریر موجود ہیں۔ سماجی تعلقات اور ازدواجیات پر انکی بیشمار تحریریں وائرل ہوتی رہتی ہیں۔
ازدواجی زندگی پارٹنر تسکین بخش ٹیسٹ جذباتی جسمانی تعلق خوشگوار رضامندی شادی شدہ صحت مند کشش محض میاں بیوی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ازدواجی زندگی پارٹنر تسکین بخش ٹیسٹ جذباتی خوشگوار میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ہو جاتا ہے کے درمیان میاں بیوی کی وجہ سے کرتے ہیں بیوی کے ہوتا ہے اگر ا پ ہیں کہ ہے اور کے لیے ہیں تو
پڑھیں:
مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔
قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔