جوتے بنانے اور سبزیاں بیچنے والا بالی ووڈ اداکار کیسے بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
بھارتی مزاحیہ اداکار سدیش لہری نے اپنی زندگی کی مشکلات اور کامیابی کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ ناخواندہ ہیں اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ جوتے بناتے اور سبزیاں بیچتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ غربت کے باعث انہیں کئی طرح کے کام کرنے پڑے، لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔
سدیش لہری نے انکشاف کیا ’’میں نے بچپن میں بہت محنت کی۔ چائے بنائی، فیکٹریوں میں کام کیا، جوتے بنائے اور سبزیاں بیچیں۔ امیر لوگ جھوٹ نہیں بولتے، مگر غریبوں کو قرض خواہوں سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ یہ سب میرے لیے ایک اداکاری کی ٹریننگ جیسا تھا،”
سدیش نے ایک ایسا واقعہ شیئر کیا جس نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔
انہوں نے بتایا، “میں ایک پرائیویٹ شو کر رہا تھا جب ایک نشے میں دھت شخص نے اسٹیج پر آ کر میرا گریبان پکڑ کر مجھے تھپڑ مارا۔ میرا مائیک زمین پر گر گیا۔ میرے ساتھی اسے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر میں نے منع کر دیا۔ اس کے بعد مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں شادیوں میں پرفارم نہیں کروں گا۔”
اس واقعے کے بعد سدیش نے اپنا گھر بیچ کر تمام قرض اتار دیے اور اپنی شناخت بنانے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بتایا “میں نے سوچا کہ عزت تب ہی ملے گی جب میں اپنا نام خود بناؤں گا۔ پھر مجھے ایک کامیڈی شو ملا جو زبردست ہٹ ہوا، اور میں نے کئی ممالک کا سفر کیا،”
سدیش لہری نے اپنے کامیابی کے سفر پر بات کرتے ہوئے مشہور اداکارہ ارچنا پورن سنگھ پر مزاحیہ انداز میں طنز بھی کیا۔ انہوں نے کہا، “جب سب لوگ مجھ پر ہنس رہے تھے، تو میری زندگی برباد ہو گئی، لیکن جب ارچنا پورن سنگھ نے مجھ پر ہنسی، تب میں نے کئی گھر بنا لیے!”
ارچنا نے ان کے اس جملے کا جواب دیتے ہوئے کہا، “میں نے تمہارا گھر تمہارے یوٹیوب چینل پر دیکھا ہے، تمہارے پاس تو ہوم تھیٹر بھی ہے!” جس پر سدیش نے ہنستے ہوئے کہا، “ہاں، وہ کرشنا ابھیشیک کے لیے بنایا ہے، کیونکہ اس کی فلمیں تھیٹرز میں ریلیز ہی نہیں ہوتیں!”
سدیش لہری نے انکشاف کیا کہ وہ کبھی اسکول نہیں گئے۔ “میں نے زندگی میں کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی، لیکن حال ہی میں ایک اشتہار کی شوٹنگ کے دوران مجھے پہلی بار اسکول جانے کا موقع ملا،”
سدیش نے اپنی شادی کی کہانی بھی سنائی، انہوں نے کہا “میری شادی طے پا چکی تھی، مگر دباؤ بہت زیادہ تھا۔ میں نے ایک دن تنگ آ کر کہا، ‘ابھی شادی کرو ورنہ میں نہیں کروں گا۔’ یہ بات صبح 10 بجے ہوئی اور دوپہر 12 بجے میں شادی شدہ تھا”
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سدیش لہری نے انہوں نے
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی