بھارت، تنخواہ دار طبقے کی 38 لاکھ پاکستانی روپے کی آمدن انکم ٹیکس سے مستثنیٰ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
نئی دہلی ( نیوزڈیسک) بھارت میں نئے بجٹ کے دوران تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف، 12 لاکھ بھارتی روپے (38لاکھ 62 ہزار پاکستانی روپے) کی سالانہ آمدن عملی طور پر انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی اور یوں ریاست 3.2 کھرب پاکستانی روپے کی محصولات سے محروم ہوگی۔
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ ميں بتایا کہ گھریلو کھپت، بچت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ متوسط طبقہ بھارت کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
نرملا سیتا رامن نے کا کہنا تھا ٹیکس کی درجہ بندی اور شرح میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں تاکہ تمام ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچے۔
اُنہوں نے اعلان کیا کہ سالانہ 12 لاکھ روپے (13,800 امریکی ڈالر، 38 لاکھ 62 ہزار پاکستانی روپے) تک کمانے والے افراد اب انکم ٹیکس سے عملی طور پر مستثنیٰ ہوں گے۔
بھارتی وزیر خزانہ نے بتایا کہ یہ حد 7 لاکھ سالانہ کے پچھلے ٹیکس فری دائرے سے تقریباً دوگنا کر دی گئی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ اسی طرح، 2020ء میں متعارف کردہ نئے ٹیکس سسٹم میں بھی ترامیم کی گئی ہیں جس کے بعد اب 16 لاکھ روپے سے 24 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر ٹیکس کی شرح 30 فیصد سے کم کر کے 20 سے 25 فیصد کر دی گئی ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستانی روپے
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔