قرآن کمپلیکس کو دینی علوم کی ترویج کا حقیقی مرکز بنائیں گے: شافع حسین
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور شافع حسین نے جامعہ اشرفیہ میں دینی سکالر واستاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ مفتی احمد علی سے ملاقات کی جس میں قرآن کمپلیکس میں خاتم النبیین یونیورسٹی کو فعال بنانے، دینی علوم کی ترویج، دینی مدارس اور مساجد کے امور پر بات چیت ہوئی۔ مفتی احمد علی نے شافع حسین کو محکمہ اوقاف و مذہبی امور کا قلمدان سنبھالنے پر مبارکباد دی، شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی۔ صوبائی وزیر اوقاف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی، رواداری، بھائی چارے کے جذبات کے فروغ اور پرامن فضا برقرار رکھنے میں علماء کرام کا کلیدی کردار ہے۔ مذہبی سکالرز اور علماء کرام کی تجاویز کی روشنی میں خاتم النبیین یونیورسٹی کو فعال بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کمپلیکس کی عمارت کو دینی علوم کی ترویج کا حقیقی مرکز بنائیں گے۔ محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام مزارات اور مساجد میں صفائی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ قرآن بورڈ اور متحدہ علماء بورڈ میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے‘‘۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔
اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لئے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔