عمران خان کا آرمی چیف کو خط، پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست: وکیل کی تصدیق
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
فوٹوز فائل
بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھ دیا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے آرمی چیف کو 6 نکات پر مشتمل خط بھیجا ہے، بانی نے بطور سابق وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ خط لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے خط میں آرمی چیف سے پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست کی، بانی پی ٹی آئی نے خط میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی بھی بات کی۔
محسن نقوی نے کہا کہ انہوں نے امریکا میں اہم ارکان کانگریس سے ملاقاتیں کی ہیں، دورے کے مزید اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے خط میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج سے اظہار یکجہتی کیا، خط میں کہا کہ فوج روزانہ قربانیاں دے رہی ہے، ضرورت ہے پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی رہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خط میں پہلا نقطہ فراڈ الیکشن اور منی لانڈررز کو جتوانے سے متعلق ہے، دوسرا نقطہ 26ویں آئینی ترمیم، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ متاثر ہونے پر ہے، خط میں بانی پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کیس فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔
بانی نے بعض صوبائی وزراء کے کرپشن میں ملوث ہونے کا دریافت کیا، بانی پی ٹی آئی نے کےپی حکومت کی کارکردگی سے متعلق بھی پوچھا
بانی پی ٹی آئی نے خط میں کہا کہ پیکا قانون کو کریمنلائز کیا گیا، تنقید کا گلا گھونٹا گیا، سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کرنے کیلئے پیکا قانون لایا گیا۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خط میں چوتھا نقطہ پی ٹی آئی کے خلاف دہشتگردی کے پرچے، چھاپے اور گولیاں چلانے پر ہے، باںی پی ٹی آئی نے لکھا صحافیوں کو دھمکیاں دینے سے سارا نزلہ فوج پر گر رہا ہے، خط میں پانچواں نقطہ انٹیلی جنس اداروں کے کام سے متعلق ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے خط میں لکھا ملکی معیشت گھٹنوں پر ہے، حکومت نے روپے کی قدر روک کر معیشت کو متاثر کیا ہے، خط میں سرمایہ کاری سب سے کم ہونے اور انٹرنیٹ بند ہونے کا بھی لکھا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی نے خط میں نے کہا کہ بانی پی ٹی بانی پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی