Express News:
2025-11-04@04:55:31 GMT

رانگ ٹرن

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003 میں آئی اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ فلم کی اسٹوری ایلن بی میکلوری (Alan B. McElroy) نے لکھی اور روب شمٹ (Rob Schmidt) نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا‘ فلم اتنی مشہور ہو گئی کہ پروڈیوسر 2007میں اس کا پارٹ ٹو لے آیا اور اس کے بعد لائین لگ گئی‘ 2009میں پارٹ تھری آیا‘ 2011 میں پارٹ فور‘ 2012 میں پارٹ فائیو‘ 2014 میں پارٹ سکس اور 2021 میں پارٹ سیون اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ 

اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔ 

یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔ 

دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔

لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔

مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔ 

اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔ 

خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔ 

کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔ 

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔ 

دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔ 

جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔ 

سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟

ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یہ رانگ ٹرن اسلام آباد ہائی کورٹ اس کے بعد میں پارٹ ماننا ہو جائے گا ہو جاتا تھا اور جاتا ہے لیکن اس رہے ہیں ہیں اور کے ساتھ نہیں ہو ہے اور کر دیا ہو گئی اور اس اور ان اور یہ تو پھر رہا ہے

پڑھیں:

’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘

’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘

ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔

آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔

گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی  اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔

آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔

لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔  خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔

آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔

اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا