عالمی تجارتی جنگ اور ٹرمپ کی پالیسیاں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر ردعمل میں کینیڈا نے بھی امریکی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا جب کہ چین نے امریکا کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت درج کرانے کا اعلان کردیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف کی وجہ سے ابھرتی ہوئی تجارتی جنگ سے ’’ کچھ درد‘‘ محسوس کرسکتے ہیں، کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔
درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس کے نتیجے میں غالباً امریکی شرح نمو میں کمی آئے گی اور صارفین کے زیر استعمال اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے۔
ٹرمپ نے باور کرایا ہے کہ یورپی مصنوعات بھی بہت جلد کسٹم ڈیوٹیوں کا ہدف ہوں گی۔ یہ عالمی سطح پر ٹرمپ کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا اقدام ہے۔ اس اقدام نے تجارتی جنگ میں شدت کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے عالمی معیشت شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتی ہے۔
کینیڈین حکومت امریکی کسٹم ڈیوٹی کے خلاف عالمی ادارہ تجارت WTO میں مقدمہ دائر کرے گی۔ اس کا مقصد کینیڈا، میکسیکو اور امریکا کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کی رو سی زر تلافی حاصل کرنا ہے۔ ٹرمپ نے خود اس معاہدے پر 2018 میں دستخط کیے تھے۔
کینیڈا کے مستعفی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک امریکی سامان پر 25% کی شرح سے ٹیکس عائد کرے گا، جس کی مالیت 155 ارب کینیڈین ڈالر (106.                
      
				
اس پلان میں ٹیکس عائد کرنے سمیت غیر معینہ تدابیر شامل ہیں۔ امریکی صدر کے اقدام سے تجارتی جنگ شروع ہوگئی ہے، امریکا کے دو بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو اور کینیڈا نے فوری طور پر جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، چین اور کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اقدام کو عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں چیلنج کرنے کے ساتھ دیگر جوابی اقدامات کریں گے۔
معاشی ماہرین کے مطابق بھاری امریکی محصولات اور جوابی اقدامات کینیڈا اور میکسیکو کی معیشتوں کو کساد بازاری کی جانب دھکیل دیں گے۔ امریکا کو بھی کسی حد تک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل ٹیرف واضح پیغام ہوتا ہے جو تجارت کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے امریکا فرسٹ موقف کو تقویت دیتا ہے۔
سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ صورتحال طویل اور وسیع تر تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین نے ٹرمپ کی جانب سے بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں پر درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
مزید برآں ایک ایکسٹرنل ریونیو سروس قائم کرنے کے ان کے منصوبے اس غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ممالک ہی بڑھتے ہوئے ٹیرف سے متاثر ہوں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صارفین بھی اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی کی صورت میں متاثر ہوں گے۔
عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے کچھ بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے انتشارکا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوں نے بعض بیانات میں توسیع پسندانہ عزائم کا اشارہ دیا، جو 19ویں صدی کی امریکی سامراجیت کی یاد دلاتے ہیں۔
ٹرمپ نے پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔
ٹرمپ کی ’’ امریکا پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکا کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یہ بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔ اس بار، اس فیصلے کے ساتھ ٹرمپ نے فوسل فیولز (تیل، گیس اور کوئلہ) کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا، جس میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات سمیت ماحولیاتی پالیسیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔
گرین انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ معطل کر دی گئی۔ ٹرمپ نے ایک بے بنیاد اعلان میں کہا کہ ’’ماحولیاتی انتہا پسندی نے مہنگائی بڑھا دی اور کاروباروں پر ضوابط کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا حکم بھی ٹرمپ کے اقدامات میں شامل ہے۔
اس فیصلے کی بنیاد بھی گمراہ کن دلائل پر مبنی تھی، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کووڈ 19کی وبا اور عالمی صحت کے دیگر بحرانوں سے نمٹنے میں ادارہ ناکام رہا اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ ادارہ ’’ لاتعداد جانیں بچا چکا ہے اور امریکی شہریوں سمیت تمام لوگوں کو صحت کے خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘
بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی تاریخ کی ’’سب سے بڑی اصلاحات کا عمل مکمل کیا۔‘‘یہ اقدامات کثیرجہتی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئے، جو پہلے ہی گزشتہ دہائی کے دوران امریکا اور دیگر بڑی یا علاقائی طاقتوں کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔
ٹرمپ نے کثیر جہتی اداروں کے معاملے میں صبر سے کام نہیں لیا اور ان کی ’’امریکا پہلے‘‘ پالیسی کثیر جہتی پر یقین رکھنے کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو جیسے اہم بین الاقوامی ادارے کمزور ہو سکتے ہیں، جو کئی دہائیوں سے عالمی تعاون اور اس کی مضبوطی کی بنیاد رہے ہیں۔
ان کا کثیر الجہتی معاہدات اور عالمی معاہدوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دینے سے ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا، جہاں دیرینہ اتحاد اور تعاونی ڈھانچے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہر ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ نقط نظر بین الاقوامی اصولوں کے ٹوٹنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کو خود اس کے اپنے بنائے گئے لبرل نظام سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔
تاہم، کچھ افراد ٹرمپ کے بین الاقوامی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات میں ممکنہ فوائد دیکھتے ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر دوسرے ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کی زیادہ ذمے داری لینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر امریکا کا عالمی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
منصفانہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے اور اتحادیوں کو دفاعی اخراجات کے لیے خود ذمے دار بنانے کی کوششوں کے ذریعہ، ٹرمپ قلیل مدت میں امریکا کے لیے زیادہ منصفانہ معاہدوں کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا یک طرفہ نقطہ نظر امریکا کو کثیر الجہتی مذاکرات کی پابندیوں کے بغیر کام کرنے کی زیادہ آزادی اور لچک فراہم سکتا ہے، جو جغرافیائی سیاسی حالات میں بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے ۔یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔
امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ اور جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہو گی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ ان سب کے باوجود روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا امکان برقرار ہے، خاص طور پر اگر روس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ٹرمپ کی لین دین کی سفارت کاری کا تصادم جاری رہا۔چین، روس اور دیگر طاقتوں کے عالمی امور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس میں امریکا اب وہ غالب پوزیشن نہیں رکھتا جو وہ کبھی رکھتا تھا۔
ٹرمپ کی حالیہ صدارت عالمی و ملکی سطح پر کئی پہلوؤں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ امیگریشن، نسل پرستی اور معاشی عدم مساوات پر ان کی پالیسیوں سے امریکی معاشرتی تقسیم اور داخلی اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی پالیسی سے ہندوستان کو ترجیح اور افغانستان میں انخلا پر نئی شرائط ممکن ہیں، جو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھا سکتے ہیں۔ فلسطین کے خلاف مزید سخت اقدامات سے فلسطینی مزاحمت میں شدت آ سکتی ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر اور خطے کے امریکی اتحادیوں پر بھی ہوگا۔
ان کی صدارت کے نتائج ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آنے والے برسوں میں جب ظاہر ہوں گے، تب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی ’’America first‘‘ والی اپروچ دنیا کے لیے کس قدر مفید ہوگی اور امریکا کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی یا انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی تجارتی بین الاقوامی میکسیکو اور ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی جنگ امریکا کے کی پالیسی امریکا کو کے اقدام کا اعلان سکتے ہیں کرنے کی سکتا ہے ٹرمپ کے کے ساتھ کی جانب ٹرمپ کی سکتی ہے کے لیے
پڑھیں:
چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
ڈاکٹر سلیم خان
جنوبی کوریا کے اندر چین نے امریکہ کو لال آنکھ دِ کھا کر دنیا کو بتا دیا کہ آنکھ دکھانا کس کو کہتے ہیں؟ امریکی صدر نے ملیشیا اور جنوبی کوریا کے دورے کا منصوبہ بنایا تو ان کا ارادہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اورچین کے سربراہ جن شی پنگ کے ساتھ ملاقات کا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کنی کاٹ کر وزیر خارجہ کو آسیان کانفرنس میں روانہ کر کے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کرکے ٹیرف جیسے تناعات کو باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کا نادر موقع گنوا دیا۔ کوالالمپور سے واپسی میں ٹرمپ جنوبی کوریا کے شہر بوسان پہنچ گئے اور وہاں چینی سربراہ مملکت شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین پر عائد ٹیرف میں 10 فیصد کمی کا اعلان ہوگیا ۔ کامیاب سفارتکاری اسے کہتے ہیں لیکن اس کی خاطر اپنے خول سے نکل باہر جانا پڑتا۔ بدقسمتی ایسا کرنے کا حوصلہ وزیر اعظم نریندر مودی میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس شی جن پنگ نے جس حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ رشک ہے ۔ اس ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی ملاقات کو "انتہائی مثبت قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان متعدد اہم امور پر اتفاق ہو چکا ہے ۔ ایک دو قطبی دنیا یہ بہت بڑی بات ہے ۔
 صدر ٹرمپ نے شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعدیہ خوشخبری سنائی کہ وہ آئندہ سال اپریل میں چین کا دورہ کریں گے ۔ یہ معاملہ وہیں نہیں رکے گا بلکہ اس کے بعد صدر شی جن پنگ بھی امریکہ کا دورہ کریں گے ۔ ٹرمپ کا چین سے کر یوکرین کے معاملے پر تعاون کرنے کا مطالبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس معاملے ہندوستان کے ساتھ روسی تیل کی برآمدات کے خلاف کہنی مروڈ کر دباو بنانے کی
 حکمت ِعملی پر کاربند ہے ۔ اس ملاقات کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی خاطر تائیوان جیسے ناقابلِ تصفیہ تنازعات سے صرفِ نظر کیا گیا مگر ٹیرف
 جیسے تنازع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ
 ملاقات نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے تجارتی مسائل پر مہینوں سے برپا ہنگامہ آرائی پر روک لگانے کی جانب اہم پیش رفت
 کی۔ یہ چوٹی کانفرنس دراصل دونوں متحارب ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ۔ کوالالمپور میں ہندوستان و امریکہ
 کے بیچ یہی سب ہوسکتا تھا لیکن مودی جی میں خود اعتمادی کا فقدان ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا۔اس میٹنگ کے بعد ٹرمپ نے کہ، چین
 پر موجودہ ٹیرف کی شرح 57 فیصد کو 47 فیصد کر کے فوری طور پر نافذالعمل کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ چین بہت جلد امریکی سویا بین کی
 خریداری شروع کر دے گا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ، فینٹینائل سے متعلق چین پر ٹیکس کو 20فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا ہے ۔
 ٹرمپ کے مطابق شی کے ساتھ ملاقات "حیرت انگیز تھی ۔ وہ بولے ، "ہم بہت سے اہم نکات پر کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اور تقریباً ہر چیز پر
 اتفاق کیا ہے ۔ یہ ملاقات کس قدر خوشگوار ماحول میں ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لیے میٹنگ سے قبل کہا جانے والا امریکی صدر کا اپنے
 چینی ہم منصب سے ہاتھ ملاتے ہوئے یہ ک جملہ کافی ہے کہ، "ہم ایک بہت کامیاب ملاقات کرنے جا رہے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہے ،۔ امریکی صدر نے پہلے ہی اعتراف کرلیا کہ شی ایک "انتہائی سخت مذاکرات کار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں "بہت اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اپنے چہیتے دوست مودی کو اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کریں گے ؟ ہر گز نہیں کیونکہ چاپلوسی اور سفارتکاری میں بہت بڑا فرق ہے ۔
 امریکی صدر کے جواب میں چینی سربراہ نے جوتیار شدہ بیان اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی نس نس سے واقف ہیں اور اپنے وقار کو داوں پر لگائے بغیر ان کی خودپسندی سے فائدہ اٹھانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ شی جن پنگ نے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ، دنیا کی دو سرکردہ معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً تصادم ہونا معمول کی بات ہے مگر اپنے مختلف نوعیت کے قومی حالات کی وجہ سے ، ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے ۔ صدرٹرمپ نے جب خوشگوار ماحول کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک شاندار تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں، اور آپ کے لیے ہمارے ساتھ رکھنا اعزاز کی بات ہے ۔ تو چینی رہنما اس کے جواب میں بولے کہ انہیں یقین ہے کہ چین کی ترقی ٹرمپ کے ‘ میک امریکہ گریٹ اگین’ کے وژن کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور وہ امریکہ چین تعلقات کی مضبوط بنیاد بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یکساں مرتبے کے دو ممالک نے ایک دوسرے کو تعاون کی پیشکش کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کی عمدہ مثال پیش کی ۔ یہ ‘ہاوڈی مودی ‘ اور نمستے ٹرمپ جیسی سطحی شوشے بازی سے بہت مختلف شئے ہے ۔
 جن پنگ شی نے خود پسند ٹرمپ کی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی سفارت کاری کو سراہا۔ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور کمبوڈیاـ تھائی لینڈ امن معاہدے میں تعاون پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ "چین اور امریکہ مشترکہ طور پر بڑے ممالک کے طور پر ہماری ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں اور دونوں ممالک پوری دنیا کی بھلائی کے لیے مزید عظیم اور ٹھوس چیزوں کو انجام دینے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کچھ لو اور دو کی بنیاد تعلقات استوار ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جہاں امریکی ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے وہیں چین نے اشارے دئیے ہیں کہ وہ نایاب معدنیات پر اپنے برآمدی کنٹرول کو نرم کرنے اور امریکہ سے سویابین خریدنے کے لیے تیار ہے ۔دونوں ممالک نے کئی دیگر معاملات پر معاہدے کیے ہیں، جن کی تفصیلات ابھی تک سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی ۔چین اور امریکہ کے درمیان یہ تجارتی معاہدہ عالمی معیشت کے لیے خوش آئند ہوا کا جھونکا ہے ۔ اس معاہدے کے سب سے زیادہ اثرات عالمی سیاسی بساط پرہندوستان کی سفارتی اہمیت پر پڑیں گے ۔ امریکی انتظامیہ نے جب چین کے اثرات کو کم کرنے کی خاطر ہندوستان کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ کر اس کے حریف اول کو اہمیت دینا شروع کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ یہ ان کی صلاحیت اور پرکشش شخصیت کا سحر ہے ۔ وقت کے ساتھ سفارتکاری کا رخ بدلا اور امریکہ نے چین کو دشمن کے بجائے دوست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح جب وہ دونوں حریف ایک دوسرے کے حلیف بن رہے ہیں تو ہندوستان کی اسٹریٹجک ضرورت ختم ہوگئی ۔ مودی جی کے یکہ وتنہا ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے ۔عالمی سفارت کے علاوہ تجارتی تناؤ میں کمی بلا واسطہ ہندوستان پر مثبت ومنفی
 اثرات ڈالے گی ۔ اس معاہدے سے عالمی اقتصادی ماحول اگر مستحکم ہوجائے اور دونوں سپر پاورز میں قربت بڑھے تو عالمی منڈیوں میں اعتماد واپس آئے گا اس ہندوستان کا بالواسطہ فائدہ بھی ہوسکتا ہے ملک میں ایف ڈی آئی اور ایف پی آئی میں اضافہ کا امکان بھی ہے ۔
 پچھلے کچھ سالوں میں چین پر عدم اعتماد کے باعث ، دنیا بھر کی کمپنیاں چائنا پلس ون کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ اس کے تحت چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں پیداواری مراکز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کو اس حکمت عملی سے بڑا فائدہ ملنے کی امید تھی۔ فی الحال ملک کا سب سے سنگین مسئلہ بیروزگاری ہے ۔ اس کو قابو میں کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے نہ سہی تو کم ازکم دوسروں کے برانڈ بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چین نے اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنے عوام کی مدد سے خود کو سُپر پاور بنالیا۔ ہندوستا ن یہ نہیں کرسکا کیونکہ لال فیتہ شاہی آڑے آگئی۔ اس نے ہمیشہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بددل کرکے دور بھگانے کا کام کیا لیکن اگر اب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں تو امریکی و دیگر کمپنیاں چین کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب کیوں دیکھیں گی؟ امریکہ اور چین کی باہمی دوستی سے ہندوستان کے علاوہ ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا بھی نقصان ہوگا۔
 ہندوستان میں ”میک ان انڈیا” مشن ویسے ہی دم توڑ رہا تھا پھر بھی الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل اور آٹو پارٹس کے شعبوں ہندوستانی صنعتکار اپنا لوہا منواتے رہے اب ان پر دباؤ بڑھے گا ۔ نئے معاہدے کے تحت اگرامریکہ ہندوستان کے بجائے چین سے سویابین اور دیگر زرعی مصنوعات کی بڑی مقدار خریدنے لگے تو زرعی برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں ۔ اس سے چین کے بازار میں ہندوستان کے زرعی سامان فروخت کرنے کے مواقع سمٹ جائیں گے ۔ ایسے میں اگر مودی سرکار ٹیرف کم کروانے میں ناکام رہے تو مسابقت کے میدان میں ہندوستانی مصنوعات کھلے بازار مین مقابلہ نہیں کرپائیں گی جو ہندوستان کے لیے تشویش کا مقام ہوگا۔ ایسی نازک صورتحال میں ملک کو عالمی سطح پر نئے انداز میں حوصلے کے ساتھ اپنے عوام کی خوشحالی کے مواقع تلاش کرنے والا رہنما درکارہے مگر ہمارے وزیر اعظم کو داخلی سیاست اور ریاستی انتخاب جیتنے سے ہی فرصت نہیں ہے تو وشو گرو بننے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔