Express News:
2025-11-03@14:57:02 GMT

عالمی تجارتی جنگ اور ٹرمپ کی پالیسیاں

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر ردعمل میں کینیڈا نے بھی امریکی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا جب کہ چین نے امریکا کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت درج کرانے کا اعلان کردیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف کی وجہ سے ابھرتی ہوئی تجارتی جنگ سے ’’ کچھ درد‘‘ محسوس کرسکتے ہیں، کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔

 درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس کے نتیجے میں غالباً امریکی شرح نمو میں کمی آئے گی اور صارفین کے زیر استعمال اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے۔

ٹرمپ نے باور کرایا ہے کہ یورپی مصنوعات بھی بہت جلد کسٹم ڈیوٹیوں کا ہدف ہوں گی۔ یہ عالمی سطح پر ٹرمپ کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا اقدام ہے۔ اس اقدام نے تجارتی جنگ میں شدت کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے عالمی معیشت شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتی ہے۔

کینیڈین حکومت امریکی کسٹم ڈیوٹی کے خلاف عالمی ادارہ تجارت WTO میں مقدمہ دائر کرے گی۔ اس کا مقصد کینیڈا، میکسیکو اور امریکا کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کی رو سی زر تلافی حاصل کرنا ہے۔ ٹرمپ نے خود اس معاہدے پر 2018 میں دستخط کیے تھے۔

کینیڈا کے مستعفی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک امریکی سامان پر 25% کی شرح سے ٹیکس عائد کرے گا، جس کی مالیت 155 ارب کینیڈین ڈالر (106.

6 ارب امریکی ڈالر) بنتی ہے۔ دوسری جانب میکسیکو کی خاتون صدرکلوڈیا شینباؤم نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے وزیر معیشت کو پلان B نافذ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اس پلان میں ٹیکس عائد کرنے سمیت غیر معینہ تدابیر شامل ہیں۔ امریکی صدر کے اقدام سے تجارتی جنگ شروع ہوگئی ہے، امریکا کے دو بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو اور کینیڈا نے فوری طور پر جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، چین اور کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اقدام کو عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں چیلنج کرنے کے ساتھ دیگر جوابی اقدامات کریں گے۔

معاشی ماہرین کے مطابق بھاری امریکی محصولات اور جوابی اقدامات کینیڈا اور میکسیکو کی معیشتوں کو کساد بازاری کی جانب دھکیل دیں گے۔ امریکا کو بھی کسی حد تک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل ٹیرف واضح پیغام ہوتا ہے جو تجارت کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے امریکا فرسٹ موقف کو تقویت دیتا ہے۔

سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ صورتحال طویل اور وسیع تر تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین نے ٹرمپ کی جانب سے بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں پر درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔

مزید برآں ایک ایکسٹرنل ریونیو سروس قائم کرنے کے ان کے منصوبے اس غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ممالک ہی بڑھتے ہوئے ٹیرف سے متاثر ہوں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صارفین بھی اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی کی صورت میں متاثر ہوں گے۔

عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے کچھ بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے انتشارکا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوں نے بعض بیانات میں توسیع پسندانہ عزائم کا اشارہ دیا، جو 19ویں صدی کی امریکی سامراجیت کی یاد دلاتے ہیں۔

ٹرمپ نے پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔

ٹرمپ کی ’’ امریکا پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکا کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یہ بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔ اس بار، اس فیصلے کے ساتھ ٹرمپ نے فوسل فیولز (تیل، گیس اور کوئلہ) کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا، جس میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات سمیت ماحولیاتی پالیسیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔

گرین انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ معطل کر دی گئی۔ ٹرمپ نے ایک بے بنیاد اعلان میں کہا کہ ’’ماحولیاتی انتہا پسندی نے مہنگائی بڑھا دی اور کاروباروں پر ضوابط کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا حکم بھی ٹرمپ کے اقدامات میں شامل ہے۔

اس فیصلے کی بنیاد بھی گمراہ کن دلائل پر مبنی تھی، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کووڈ 19کی وبا اور عالمی صحت کے دیگر بحرانوں سے نمٹنے میں ادارہ ناکام رہا اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ ادارہ ’’ لاتعداد جانیں بچا چکا ہے اور امریکی شہریوں سمیت تمام لوگوں کو صحت کے خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی تاریخ کی ’’سب سے بڑی اصلاحات کا عمل مکمل کیا۔‘‘یہ اقدامات کثیرجہتی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئے، جو پہلے ہی گزشتہ دہائی کے دوران امریکا اور دیگر بڑی یا علاقائی طاقتوں کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔

ٹرمپ نے کثیر جہتی اداروں کے معاملے میں صبر سے کام نہیں لیا اور ان کی ’’امریکا پہلے‘‘ پالیسی کثیر جہتی پر یقین رکھنے کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو جیسے اہم بین الاقوامی ادارے کمزور ہو سکتے ہیں، جو کئی دہائیوں سے عالمی تعاون اور اس کی مضبوطی کی بنیاد رہے ہیں۔

ان کا کثیر الجہتی معاہدات اور عالمی معاہدوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دینے سے ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا، جہاں دیرینہ اتحاد اور تعاونی ڈھانچے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہر ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ نقط نظر بین الاقوامی اصولوں کے ٹوٹنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کو خود اس کے اپنے بنائے گئے لبرل نظام سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔

تاہم، کچھ افراد ٹرمپ کے بین الاقوامی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات میں ممکنہ فوائد دیکھتے ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر دوسرے ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کی زیادہ ذمے داری لینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر امریکا کا عالمی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔

منصفانہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے اور اتحادیوں کو دفاعی اخراجات کے لیے خود ذمے دار بنانے کی کوششوں کے ذریعہ، ٹرمپ قلیل مدت میں امریکا کے لیے زیادہ منصفانہ معاہدوں کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا یک طرفہ نقطہ نظر امریکا کو کثیر الجہتی مذاکرات کی پابندیوں کے بغیر کام کرنے کی زیادہ آزادی اور لچک فراہم سکتا ہے، جو جغرافیائی سیاسی حالات میں بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے ۔یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔

امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ اور جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہو گی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ ان سب کے باوجود روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا امکان برقرار ہے، خاص طور پر اگر روس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ٹرمپ کی لین دین کی سفارت کاری کا تصادم جاری رہا۔چین، روس اور دیگر طاقتوں کے عالمی امور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس میں امریکا اب وہ غالب پوزیشن نہیں رکھتا جو وہ کبھی رکھتا تھا۔

ٹرمپ کی حالیہ صدارت عالمی و ملکی سطح پر کئی پہلوؤں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ امیگریشن، نسل پرستی اور معاشی عدم مساوات پر ان کی پالیسیوں سے امریکی معاشرتی تقسیم اور داخلی اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی پالیسی سے ہندوستان کو ترجیح اور افغانستان میں انخلا پر نئی شرائط ممکن ہیں، جو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھا سکتے ہیں۔ فلسطین کے خلاف مزید سخت اقدامات سے فلسطینی مزاحمت میں شدت آ سکتی ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر اور خطے کے امریکی اتحادیوں پر بھی ہوگا۔

ان کی صدارت کے نتائج ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آنے والے برسوں میں جب ظاہر ہوں گے، تب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی ’’America first‘‘ والی اپروچ دنیا کے لیے کس قدر مفید ہوگی اور امریکا کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی یا انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی تجارتی بین الاقوامی میکسیکو اور ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی جنگ امریکا کے کی پالیسی امریکا کو کے اقدام کا اعلان سکتے ہیں کرنے کی سکتا ہے ٹرمپ کے کے ساتھ کی جانب ٹرمپ کی سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-7

 

امیر محمد کلوڑ

فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔

آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔

حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔

یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔

’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔

دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔

 

امیر محمد خان کلوڑ

متعلقہ مضامین

  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار