کیا ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ بند کرنے جارہے ہیں؟ نئی تفصیلات سامنے آگئیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشل ڈیویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) کی آزاد حیثیت ختم کرکے اسے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ انضمام کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
وائٹ ہاوس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے انٹرنیشل میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یو ایس ایڈ کے اخراجات میں کمی اور اس کی کارکردگی میں بہتری کے لیے اس کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ انضمام کا سوچ رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کے انضمام کی ذمہ داری امریکی ٹیکنالوجی ٹائیکون اور اپنے ساتھی ایلون مسک کو دی ہے۔ واضح رہے کہ ایلون مسک کو نئی ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شیئنسی (ڈی او جی ای) کا سربراہ مقرر کیا ہے جس کا مقصد امریکی وفاقی حکومت کے زائد اخراجات میں کمی اور غیرضروری آپریشنز بند کرنا ہے۔
وائٹ ہاوس ذرائع کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک نوٹفیکیشن کے ذریعے جلد ہی امریکی کانگریس کو یو ایس ایڈ کے انضمام کے منصوبے کی اطلاع دے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایلون مسک نے یو ایس ایڈ کے خلاف اس وقت سخت بیانات دیے جب مبینہ طور پر ڈی او جی ای کے نمائندوں کو اس ادارے کی معلومات اور دستاویزات تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایلون مسک نے ٹویٹ کرتے ہوئے یو ایس ایڈ کو ’مجرم تنظیم قرار دیا اور کہا کہ اس کے ’مرنے‘ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
ایلون مسک کے بیانات کے بعد یو ایس ایڈ کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، اب سامنے آنے والی نئی تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ بین الاقوامی امداد کے اس اہم ادارے کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے انضمام چاہتے ہیں۔
اس سے قبل صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امدادی پروگراموں پر عارضی پابندی کا اعلان کیا تھا جس سے یو ایس ایڈ بین الاقوامی آپریشنز کو شدید دھچکا لگا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: یو ایس ایڈ کے ڈونلڈ ٹرمپ ایلون مسک کے مطابق
پڑھیں:
لاس اینجلس فسادات: نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بعد مظاہروں کی شدت میں اضافہ
امریکی شہر لاس اینجلس میں ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھی گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقے میں وفاقی حکومت کے زیرانتظام موجود نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ مظاہرے گزشتہ روز اس وقت شروع ہوئے تھے جب ٹرمپ انتظامیہ نے علاقے میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی دیکھیے: امریکا جانا مشکل :امیگریشن پالیسی سخت کرنے کا بل کانگریس میں پیش
1965 کے بعد یہ پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے ریاست کے گورنر کی درخواست کے بغیر نیشنل گارڈ تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی صد کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناکر اسے مظاہرین کو مزید اشتعال دلانے کے سبب کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیویون نیوسم نے اس اقدام کو بحران پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے امریکی صدر کو لکھے ایک خط میں فیصلہ واپس لینے کا کہا۔ اس فیصلے کے بعد ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں کا رُخ کیا ہے اور وفاقی فورس کی تعیناتی کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے مظاہروں نے کے بعد کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں قریباً 2 ہزار نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو مظاہرین کے خلاف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا کا غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے پر 1000 ڈالر دینے کا اعلان
مظاہروں کے درمیان مظاہرین کے کئی علاقوں میں وفاقی امیگریشن اہلکاروں کے ساتھ تصادم ہوا اور علاقے میں ٹریفک کے نظام میں بھی خلل پڑا۔ رپورٹس کے مطابق ٹرمپ حکومت نے امیگریشن حکام کو یومیہ 3 ہزار قانونی رہائش پذیر غیرملکیوں کے انخلا کا ہدف دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فسادات لاس اینجلس مظاہرے