WE News:
2025-09-18@12:06:04 GMT

پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے کے امکانات کیسے بڑھ گئے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے کے امکانات کیسے بڑھ گئے؟

ملکی معیشت پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم یہ عمل اب تک مکمل نہیں ہوسکا ہے، حکومت نے جلد نجکاری کے لیے پی آئی اے قرض کا بوجھ کم کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد قرض ایک دوسری کمپنی کو منتقل کرتے ہوئے پی آئی اے سی ایل کے نام سے ایک الگ کمپنی تشکیل دی جس پر قرض کا بوجھ کم رہ گیا۔

گزشتہ سال 31 اکتوبر کو ایک مرتبہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا بھی انعقاد کیا گیا تاہم خریداری میں دلچسپی لینے والی صرف ایک کمپنی نے اس میں حصہ لیا اور وہ بھی صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی۔

یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری: بلیو ورلڈ سٹی کی 10ارب روپے کی بولی مسترد

نجکاری کمیشن نے چونکہ پی آئی اے کی ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی اس لیے بلیو ورلڈ کنسورشیم کی 10 ارب روپے کی بولی مسترد کر دی گئی اور اب تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری مکمل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سرفہرست نجکاری کے لیے ایف بی آر کی جانب سے درکار تعاون کا نہ ملنا تھا۔

مزید پڑھیں:نواز شریف 50 سال سے سیاست میں ہیں انہیں پی آئی اے نجکاری کی بنیادی بات سمجھ نہیں آرہی، فواد چوہدری

وزیر نجکاری علیم خان نے بتایا تھا کہ طیاروں کی لیز پر 18 فیصد جی ایس ٹی نہ لینے کا ایف بی آر سے مطالبہ بھی کیا گیا تھا تاہم ایف بی آر نے بالکل لچک نہیں دکھائی۔

رواں سال کے آغاز سے پی آئی اے کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور یورپی روٹس کی بحالی کے بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پہلی پرواز 10 جنوری کو پیرس پہنچ گئی۔

اس کے علاوہ برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اور پاکستانی سول ایوی ایشن کے حکام 6 فروری تک پی آئی اے سمیت پاکستان کی بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے پروازوں کی بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات کا آڈٹ کرے گی۔

مزید پڑھیں:پی آئی اے کو چلانا نہیں بیچنا میری ذمہ داری، لیکن اونے پونے فروخت نہیں کرسکتے، وزیر نجکاری عبدالعلیم خان

امکان ظاہرکیا جارہا ہے کہ اب برطانوی روٹ بھی بحال ہوجائے گا اور یہ روٹ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے، لندن، برمنگھم اور مانچسٹر جیسے روٹس پر پاکستان کے پاس ایک ہفتے میں 3 پروازیں ہوا کرتی تھیں۔

روٹس کی بحالی کے علاوہ اب پی آئی اے اور دیگر ایئرلائنز کو نئے فلیٹس کی خریداری کے لیے سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سیکریٹری نجکاری کمیشن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ہوائی جہازوں کے نئے فلیٹس کی خریداری کے لیے تمام ایئرلائنز کو 60 سے 70 ارب روپے تک ٹیکس چھوٹ حاصل ہو گی۔

مزید پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید کتنا نقصان ہوگا؟

پی آئی اے کو بھی 15 سے 20 فلیٹس خریدنا ہوں گے، نجکاری کے لیے پی آئی اے کی منفی ایکیویٹی بھی ختم کر دی گئی ہے، 16 ہزار پینشنرز کے واجبات بھی حکومت ادا کرے گی، پی آئی اے نے اب 26 ارب ایف بی آر جبکہ 10 ارب روپے سول ایوی ایشن کو ادا کرنا ہیں۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری اب بھی حکومت کی اولین ترجیح ہے، نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والوں کے لیے ایکسپریشن آف انٹرسٹ رواں ماہ ہی جاری کیا جائے گا، پی آئی اے کی نجکاری میں اس وقت اتحاد اور قطر ایئرلائنز دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بولی پی آئی اے نجکاری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بولی پی ا ئی اے نجکاری پی آئی اے کی نجکاری ئی اے کی نجکاری نجکاری کے لیے پی ا ئی اے ارب روپے ایف بی

پڑھیں:

پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف

اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان سے افغان مہاجرین واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک 554000 مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اگست 2025 میں 143000افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے
جبکہ صرف ستمبر 2025 کے پہلے ہفتے میں ایک لاکھ افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے ۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔دوسری جانب مجموعی طور پر 2023 سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ حکومت اس فیصلے کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتی ہے،جبکہ پی او آر کارڈز کے حامل افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی واپسی کا عمل جاری ہے لیکن سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس،وقت غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ملکی سلامتی کے لئے زیادہ خطرہ ہیں تاہم رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام افغان مہاجرین کی واپسی اب ناگزیر ہے اور انہیں ہر حال میں واپس جانا ہے دوسری جانب ریاستی ادارے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور حکومت کا یہ ٹارگٹ ہے کہ رواں برس کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مکمل کرلیا جائے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر دہائیوں سے پاکستان میں آباد تھے۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے افغانستان میں اپنے آٹھ امدادی مراکز بند کر دیے ہیں۔ ان مراکز کا بنیادی کام واپس آنے والے افغان مہاجرین کو رجسٹریشن، بایومیٹرک تصدیق اور فوری مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ان مراکز کی۔بندش کی وجہ طالبان حکومت کی خواتین عملے پر ان مراکز میں کام کرنے پر پابندی بتائی گئی ہے جس کے باعث UNHCR نے کہا کہ وہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان مراکز میں روزانہ سات ہزار افراد مدد کے لیے رجوع کرتے تھے، لیکن اب یہ سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اس کے علاوہ مالی امداد اور فنڈز کے بحران کو بھی جواز بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ واپسی کرنے والے مہاجرین کو سب سے بڑا مسئلہ نقد امداد کی معطلی ہے۔ان تمام جواز کو بنیاد بنا کر UNHCR نے اعلان کیا ہے کہ فنڈز کی کمی اور طالبان کی سخت عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے اب وہ لاکھوں افراد کو کیش اسسٹنس یعنی نقد رقم فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف ڈونر ممالک نے بھی فنڈز روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اگر اضافی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات دینا ناممکن ہو جائے گا۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پاکستان اور ایران سے واپس جا رہے ہیں، ان کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جو حالیہ زلزلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہی رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کی سہولیات محدود ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت اور بنیادی خدمات تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب مہاجرین کی واپسی کا یہ معاملہ صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپی ممالک بھی اپنے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے کر رہے ہیں جس میں جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران عالمی سطح پر نئی سفارتی اور سیاسی صف بندی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی، طالبان حکومت کی سختیاں اور عدم تعاون ۔ اقوام متحدہ کے ہاتھ کھڑے کر دینا اور فنڈز کا بحران یہ سب عوامل مل کر افغان مہاجرین کے لیے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں نتیجتا لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال، بنیادی سہولیات کی کمی اور سخت پالیسیوں کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہیں تاہم اسکی تمام تر ذمہ داری اب افغان حکومت اور اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دہائیوں تک لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لئے ممکن نہیں رہی

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • صائم ایوب کی ایشیا کپ میں صفر پر آوٹ ہونے کی ہیٹ ٹرک مکمل
  • اسرائیل کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے: منعم ظفر
  • سیگریٹ نوشی ٹائپ 2 ذیابیطس کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے، تحقیق
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیر اعظم شہباز شریف پر جرح مکمل
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • باجوڑ آپریشن، چار گاؤں کلیئر ہونے کے بعد مکینوں کو واپسی کی اجازت
  • خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری اور پنشن اصلاحات کیخلاف ملازمین کا سڑکوں پر آنے کا عندیہ