تحریک انصاف کی مینار پاکستان جلسے کی اجازت پر لاہور ہائی کورٹ نے جواب طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 فروری ۔2025 ) تحریک انصاف کی 8 فروری کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت سے متعلق درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اور دیگر فریقین سے جواب طلب کرلیا ہے نجی ٹی وی کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت کی.
(جاری ہے)
دوسری جانب پی ٹی آئی کارکنوں کی ممکنہ گرفتاریوں کے خلاف بھی ایڈووکیٹ اشتیاق اے خان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی درخواست میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ 8 فروری کے جلسے سے قبل پی ٹی آئی کارکنوں کی فہرستیں مرتب کرلی گئی ہیں جن کے تحت کارکنوں کی گرفتاریوں اور انہیں ہراساں کیے جانے کا خدشہ ہے عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کارکنان کی ممکنہ گرفتاریاں روکنے کا حکم دے.
واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے 8 فروری کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ڈپٹی کمشنر لاہور اور دیگر کو ہدایت کی جائے کہ 8 فروری کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت دیں اور پی ٹی آئی کے بے گناہ کارکنان کو ہراساں کرنے اور اغوا کرنے سے روکا جائے. قبل ازیں پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے کہا تھا کہ 8 فروری کو پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ پرشب خون مارا گیا ہم اس کے خلاف مینار پاکستان پر جلسہ کریں گے ان کا کہنا تھا کہ اگر مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت نہیں ملتی تو ہم قانونی راستہ اختیار کریں گے انہوں نے جلسے کی اجازات نہ ملنے پر یوم سیاہ منانے کی دھمکی دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جلسے کا کوئی وقت نہیں ہوتا اس مرتبہ کوئی قدغن قبول نہیں کریں گے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت لاہور ہائی کورٹ کہ 8 فروری پی ٹی آئی فروری کو گیا ہے
پڑھیں:
برطانیہ میں فلسطین ایکشن پر پابندی کیخلاف مظاہرہ، ہائی کورٹ میں حکومتی فیصلے کو چیلنج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: برطانیہ میں سرگرم فلسطین حامی گروہ فلسطین ایکشن پر دہشت گردی کے قانون کے تحت ممکنہ پابندی کیخلاف لندن میں رائل کورٹس آف جسٹس کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی، انہوں نے برطانوی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں فلسطینی حامی آوازوں کو دبا رہی ہے اور پرامن سیاسی احتجاج کو جرم بنا رہی ہے۔
یہ مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب عدالتِ عالیہ میں اس حکومتی اقدام کے خلاف دائر کردہ ایک قانونی چیلنج پر سماعت جاری تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ فلسطین ایکشن کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ روک دیا جائے۔
فلسطین ایکشن ایک متحرک کارکن گروہ ہے جو اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی البت سسٹمز (Elbit Systems) اور دیگر ایسی کمپنیوں کے خلاف براہ راست کارروائیاں کرتا رہا ہے جن پر اسرائیل کے مظالم میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اگر اس گروہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کی رکنیت یا حمایت کرنے والے کو 14 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران فلسطین ایکشن کی شریک بانی ہدیٰ عموری کے وکیل رضا حسین کے سی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک پرامن اور عدم تشدد پر مبنی شہری نافرمانی کی تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے، جو نہایت آمرانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی موکلہ کو سفرجٹس، نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد اور عراق جنگ مخالف تحریک جیسے پرامن احتجاج سے متاثر ہو کر یہ تحریک شروع کرنے کی تحریک ملی۔
ادھر مظاہرے کے دوران اس وقت کچھ کشیدگی پیدا ہوئی جب ایک اسرائیل حامی شخص نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، پولیس نے فوری مداخلت کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو موقع سے ہٹا دیا اور صورتحال کو قابو میں رکھا۔
برطانوی وزارت داخلہ اس پابندی کو موخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کر رہی ہے اور یہ مؤقف رکھتی ہے کہ اس گروہ کی سرگرمیاں ناقابل قبول ہیں، یہ اقدام اس ہفتے ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز سے منظور ہونے کے بعد نافذالعمل ہونے کے قریب ہے اور اگر عدالت نے روکنے کا حکم نہ دیا تو یہ پابندی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب سے نافذ ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ فلسطین ایکشن نے حالیہ برسوں میں البت سسٹمز اور اس کے شراکت داروں کے دفاتر، فیکٹریوں اور تنصیبات پر متعدد بار احتجاجی مظاہرے، دیواروں پر پینٹ، اور علامتی قبضے کی کارروائیاں کی ہیں، جن کا مقصد اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کی سرگرمیوں کو روکنا اور فلسطینیوں کے خلاف جاری مظالم کو بے نقاب کرنا ہے۔
ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلے کا اعلان متوقع ہے، جس کے بعد برطانیہ میں انسانی حقوق اور احتجاج کی آزادی کے حوالے سے نئی بحث شروع ہونے کا امکان ہے۔